علم حاصل کرنے کی جستجو ہو تو طالب علم ہر مشکل پار کر جاتا ہے۔ اس بات کو حقیقت کر دکھایا بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل کے رہائشی 9 سالہ شوکت خان نے جو علم کے سورج سے اپنے حصے کی کرنیں سمیٹنے کے راستے میں اپنی معذوری کو حائل نہیں ہونے دیتا۔
مزید پڑھیں
سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس پر ان دنوں ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک 9 سالہ بچہ جو دونوں ٹانگوں سے معذور ہے گدھے پر سوار ہو کر علم کے حصول کے لیے اسکول جاتا دکھایا گیا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے شوکت خان کے چچا نے بتایا کہ ان کا بھتیجا پولیو کے موذی مرض میں گزشتہ 6 سال سے مبتلا ہے جس کی وجہ سے شوکت کی دونوں ٹانگیں ناکارہ ہوچکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شوکت کو اسکول جانے کا بہت شوق ہے اور علم کی پیاس بجھانے کے لیے وہ روزانہ 3 سے 4 کلو میٹر کا سفر طے کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دراصل ہمارا گھر موسیٰ خیل کے نواحی علاقے کلی علما میں واقع ہے جہاں سے شوکت گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول محمود آباد موسیٰ خیل روزانہ کی بنیاد پر جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کلی سے اسکول کا راستہ بھی کافی دشوار گزار ہے لیکن شوکت تعلیم کے حصول کے لیے ہر مشکل کو پار کر جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شوکت نے گزشتہ برس اپنی تعلمی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اس وقت اسکول سے بنیادی تعلیم حاصل کررہا۔ انہوں نے کہا کہ میرا باہمت بھتیجا تعلیم کے حصول میں اپنی معذوری کو آڑے نہیں آنے دے رہا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ شوکت کے والد مدرسے میں عالم ہیں اور اسی سے ان کے گھر کا گزر بسر چلتا ہے۔ آمدن کم ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچے کو کوئی مناسب سواری نہیں دلا سکتے اسی لیے وہ گدھے پر اسکول جانے کے لیے مجبور ہے۔
شوکت کے چچا نے مزید بتایا کہ ہمارا اور شوکت کا خواب ہے کہ تعلیم حاصل کرکے وہ ایک اچھا افسر بنے اور ملک و قوم کا نام روشن کرے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ گھریلو حالات کی تنگی کے باعث اندیشہ ہے کہ شوکت کا یہ خواب کہیں ادھورا ہی نہ رہ جائے۔
انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ شوکت کی مالی معاونت کی جائے تاکہ یہ بچہ علم کی دولت سے مالامال ہو جائے۔
شوکت کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ شوکت علم کے حصول کے لیے اتنا پر جوش ہے کہ سال میں کوئی بھی اضافی چھٹی نہیں کرتا جبکہ سردی ہو یا گرمی کسی بھی قسم کا موسم شوکت کے ارادوں کو پست نہیں کر سکتا ہے۔
شوکت کے چچا نے بچے کو پولیو ہونے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کی ٹیمیں اکثر اوقات پولیو کے قطرے پلانے کے لیے علاقے میں آتی ہیں اور بچوں کو زبر دستی یہ قطرے پلاتی ہیں، اگر ہم پولیو کے قطرے بچوں کو نہ پلائیں تو انتظامیہ گرفتاریاں بھی عمل میں لاتی ہے لیکن ہم بچوں کو یہ خطرے پلانا نہیں چاہتے کیونکہ ہمارا دل اس بات کو نہیں مانتا۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں ایسے 2 ہی ممالک پاکستان اور افغانستان رہ گئے ہیں جہاں آج بھی پولیو کا خطرناک مرض معصوم بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اسے حکومتی غفلت کہیں یا والدین کی کم علمی لیکن پولیو سے قوم کا مستقبل معذوری کا شکار ہو رہا ہے۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی پولیو پر قابو پانے کے لیے بلوچستان کے 20 اضلاع میں 7 روزہ انسداد پولیو مہم 3 جون سے شروع ہوئی ہے جس میں 18 لاکھ 84 ہزار بچوں کو پولیو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلائے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے لیکن ان سب اقدامات کے بعد بھی کئی بچے اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ اس مرض پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ شوکت جیسے قابل بچوں کو معذوری کی محتاجی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔