’دکھ جھیلے بی فاختہ‘، اسمگلروں کی آلہ کار خواتین جو پاک افغان شاہراہ سے سامان بحفاظت منزل تک پہنچاتی ہیں

منگل 4 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پشاور کے کارخانو پھاٹک کے قریب ایک پارکنگ کے باہر بڑی تعداد میں خواتین روایتی ’شٹل کاک‘ برقعے میں ملبوس قطار میں بیٹھی انتظار کر رہی ہیں۔ ان کی نظریں پاک افغان شاہراہ پر مرکوز ہیں اور جونہی سامان لادے چنگ چی رکشہ نظر آتا ہے وہ برقعہ سمیٹ کر دوڑ لگاتی ہیں۔

پشتو زبان میں ان خواتین کو گنڈا مار کہتے ہیں جو گنڈا سے ماخوذ ہے جس کا مطلب کپڑے میں لپٹے ہوئے سامان کے ہیں۔ جو خصوصی موٹر سائیکل لوڈر ڈرائیورز کے ساتھ مل کر سابقہ قبائلی علاقے سے مختلف غیر ملکی سامان پشاور کی مختلف مارکیٹوں اور اڈے تک پہنچاتی ہیں۔ جہاں سے وہ سامان یا تو وہیں فروخت کیا جاتا یا دیگر صوبوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ انہیں ’مِنی اسمگلرز‘ بھی کہا جاتا ہے۔

’صبح سویرے گھر سے نکلتے ہیں‘

طاہرہ (فرضی نام) بھی گنڈے کا کام کرتی ہیں اور ان کا تعلق نوشہرہ ہے۔ پشتو میں بات کرتے ہوئے انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کی تگ و دو صبح سویرے ہی شروع ہوجاتی ہے اور وہ رات دیر تک سڑکوں پر ہی رہتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں پورا دن سخت گرمی، سردی، بارش دھوپ میں ہر وقت سڑکوں پر رہنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ سخت کام ہے، لوگ بھی اس کام کو غلط سمجھتے ہیں اور گنڈامار کہتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہر عورت کے بس کا کام نہیں ہے اور ہمیں پتا ہے یہ کام غلط ہے لیکن ہم یہ اس لیے کرتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس اور کوئی کام نہیں ہے اور اکثر خواتین کے گھر کمانے والا بھی کوئی نہیں۔

گنڈا مار خواتین کا کام کیا ہے؟

مِنی اسمگلرز یا گنڈامار ٹیم 2 ممبران پر مشتمل ہوتی ہے، ایک خاتون اور دوسرا نوجوان لڑکا۔ لڑکے کا کام سامان لوڈ کرنا اور رکشے کو فل اسپیڈ میں چلانا ہوتا ہے۔ انیلہ گل (فرضی نام) بھی انتظار میں بیٹھی تھیں اس دوران ٹائرز لوڈ کرکے چنگ چی آیا تو انہوں نے اس پر بیٹھنے کے لیے دوڑ لگا دی۔ رکشہ پارکنگ کے کونے میں منشی کے پاس رکا اور پرچی حاصل کر لی۔ گنڈامار کے موٹر سائیکل لوڈر پر غیر ملکی ٹائر لدے تھے جو اکثر افغانستان سے آنے سے کابلی کے نام سے مشہور ہیں۔ انیلہ ٹائر کے اوپر جا کر بیٹھ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ ’بس یہی ہے ہمارا کام، اس سامان کے اوپر بیٹھنا اور اسے منزل تک پہنچانا‘۔

’سامان پہنچانے کی ذمہ داری ہماری ہوتی ہے‘

انیلہ نے بتایا کہ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے صرف بیٹھنا ہی ان کا کام نہیں ہے بلکہ سامان کو منزل تک پہنچانا بھی ان کی ذمہ داری ہے اور اگر راستے میں پولیس یا کسٹم حکام ضبط کرلے تو خواتین ذمے دار ہیں اور ریکوری ان سے کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ٹرپ میں ہی لاکھوں کا سامان ہوتا ہے اور کئی خواتین سے اب بھی ریکوری ہو رہی ہے۔

پشاور کے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ گنڈامار خواتین بڑی تیز اور جھگڑالو ہوتی ہیں۔ انہوں ںے کہا کہ ان خواتین کا کام صرف سامان پر بیٹھنا ہی نہیں بلکہ پولیس یا دیگر محکمہ کارروائی کرے تو ان سے لڑنا اور سامان نکالنا بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ سال پہلے حیات آباد پولیس نے گنڈاماروں کے خلاف کارروائی کی اور اسمگلنگ کا سامان ضبط کیا تو تمام خواتین تھانے کے باہر جمع ہوگئیں اور ا پنے کپڑے پھاڑ کر احتجاج کیا اور الزام پولیس پر عائد کیا اس لیے پولیس حکام بھی کارروائی سے پہلے 10 بار سوچتے ہیں۔

’ایک ٹرپ کے عوض 500 روپے ملتے ہیں‘

فاطمہ (فرضی نام) کی عمر 30 سال کے قریب ہے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے گنڈا مار کا کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ بھی یہی کام کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا شوہر نشے کا عادی ہے اور گھر میں کوئی کمانے والا نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس فیلڈ میں آئی ہیں۔

فاطمہ نے بتایا کہ انہیں ایک ٹرپ کے 500 روپے ملتے ہیں اور دن میں 3 سے 5 ٹرپ ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی دن بغیر ٹرپ کے ہی واپس چلی جاتی ہیں جبکہ موٹرسائیکل لوڈر والا 1200 روپے وصول کرتا ہے۔

انیلہ کے مطابق ہر سرکاری اہلکار ان کے خلاف کارروائی کے لیے تیار رہتا ہے اور کارخانو پھاٹک سے چیک پوسٹوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اکثر کسٹم حکام کارروائی کرتے ہیں اور گوداموں پر چھاپے بھی مارتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کئی دنوں تک کام سے محروم ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ روزانہ روٹ تبدیل کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ یونیورسٹی روڈ سے خیبر روڈ اور پھر وہاں سے جی ٹی روڈ سے ہو کر اڈے تک پہنچتے ہیں جبکہ اگلی بار رنگ روڈ کا رخ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گورا قبرستان پر سیکیورٹی چیک پوسٹ ہے اسی وجہ سے تہکال سے رانگ سائٹ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس یا کسٹم حکام کو دیکھ کر ڈرائیور اسپیڈ بڑھا دیتا ہے جس سے رکشے پر سے گرجانے کا بھی خدشہ رہتا ہے۔

مِنی اسمگلرز کس سامان کی ترسیل کرتے ہیں؟

پولیس اور کسٹم حکام کے مطابق سابقہ قبائلی علاقوں سے غیر ملکی سامان آتا ہے جس میں گاڑیوں کے ٹائر، کپڑا، خشک میوہ جات، شامل ہیں۔ اس سامان کو مِنی اسمگلرز حاجی کیمپ اڈا یا مارکیٹ منتقل کرتے ہیں جہاں سے یہ بآسانی اسلام آباد اور پنجاب سپلائی کیا جاتا ہے۔

طاہرہ کے مطابق پولیس والے بھی سامان ضبط کرکے کسٹم کے حوالے کرتے ہیں جبکہ کسٹم حکام جرمانے کے ساتھ ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں جس سے تاجر کا نقصان ہوتا ہے اور وہ ان سے کٹوتی کرتے ہیں۔

کسٹم کے ایک افسر نے وی نیوز کو بتایا کہ گنڈامار خواتین حکومت کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ اس کا فائدہ اسمگلرز اٹھاتے ہیں جو افغانستان یا دیگر ممالک سے یہ سامان لاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اصل اسمگلرز ان خواتین کو اپنے سامان کی محفوظ ترسیل کے لیے رکھتے ہیں جبکہ معمولی معاوضہ دے کر لاکھوں روپوں کا ٹیکس بچاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ خواتین کھلے عام سامان پر بیٹھ کر مرکزی سڑکوں پر جاتی ہیں اگر کارروائی کرتے ہیں تو حملہ آور ہو جاتی ہیں اور یہاں تک کہ کپڑے پھاڑ کر الزام اہلکاروں پر لگادیتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے خلاف کارروائی ہوتی رہتی ہے لیکن یہ باز نہیں آتیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp