تاریخی شہر ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال کو یوں تو سکھوں کے مذہبی مقام گوردوارہ سری پنجہ صاحب، پہاڑ پر واقع سخی زندہ پیر کی بیٹھک اور کیڈٹ کالج کی وجہ سے خاص اہمیت پہلے ہی سے حاصل ہے لیکن اس شہر کی شہرت کی وجہ گوردوارہ پنجہ صاحب کے بالکل سامنے واقع صدیوں پرانا مقبرہ لالہ رخ بھی ہے۔
مزید پڑھیں
لالہ رخ کون سی شخصیت تھی، مقبرے کے وسط میں کونسی شخصیت مدفن ہے اور اس مقبرے کا نام لالہ رخ کس نے رکھا اس حوالے سے مختلف نقطہ نظر کے باوجود یہ تاریخی مقام سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
مقامی روایات کے مطابق اس مقبرے کو مغل شہزادی لالہ رخ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے لیکن اس سے متعلق تاریخ میں کوئی تصدیق نہیں ملتی۔
اس مقبرے کا ذکر غیر ملکی افسانہ نگار تھامس مور کی سنہ 1846 میں لندن سے شائع ہونے والی کتاب میں ’مقبرہ لالہ رخ‘ کے نام سے ملتا ہے۔ جنہوں نےکوسوں میل دور بیٹھ کر اپنی کتاب میں اس مقبرے کی منظر کشی کی تھی۔
اس مقبرے کا راستہ خوبصورت گھنے درختوں کے بیچ سے گزرتا ہے۔ مقبرے کے وسط میں واقع قبر کے تعویز کو پیلے ریتیلے پتھر پر تراشا گیا اور تقریبا 2.4 میٹر بلند مستطیل نما چبوترے پر نصب کیا گیا ہے۔
مقبرے کے احاطے کے گرد چار دیواری ہے جس کے چاروں کونوں میں گنبد نما برجیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ ان برجیوں اور دیوار کو بوقت تعمیر نقاشی کے کام سے آراستہ کیا گیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ معدوم ہو چکا ہے۔
مقبرے کا ایک ہی داخلی دروازہ ہے۔ اس مقبرے کی سیر کو آنے والے سیاح اپنے کیمروں میں یہاں کے دلکش مناظر کو محفوظ کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔
مقبرہ لالہ رخ کی دیکھ بھال پر مامور ساجد محمود صدیقی نے وی نیوز کو بتایا کہ مقامی افراد اس مقبرہ کو تنگی بھی کہتے ہیں لیکن سیاحوں میں یہ مقام مقبرہ لالہ رخ کے نام سے ہی مشہور ہے۔
ساجد محمود صدیقی نے بھی اس مقبرہ کو بہت سلیقے سے سنبھال رکھا ہے۔ مقبرہ لالہ رخ اور ایسے دیگر تاریخی مقامات ہماری ثقافت کا قیمتی اثاثہ ہیں جن کی مناسب دیکھ بھال سے ہم پاکستان میں سیاحت کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔