توہین عدالت کیس: سپریم کورٹ نے تمام ٹی وی چینلز سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا

بدھ 5 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں تمام ٹی وی چینلز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔ مصطفیٰ کمال نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی جبکہ فیصل واوڈا نے عدالت سے وقت مانگ لیا جس پر عدالت نے شوکاز نوٹس پر جواب طلب کرتے ہوئے ایک ہفتے کا وقت دے دیا اور سماعت 28 جون تک ملتوی کردی۔

3رکنی بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم افغان شامل ہیں، چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا نے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر پابندی لگائی ہے، ایسی پریس کانفرنسز کوور ہورہی ہیں جبکہ عدالتی کارروائی پر پابندی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پیمرا کی سرزنش کرتے ہوئے 2ہفتوں میں جواب طلب کردیا۔

مصطفی کمال نے ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگ لی

سماعت کے آغاز میں رہنما ایم کیو ایم مصطفیٰ کمال نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی، ان کے وکیل فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ہم نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے جس میں غیر مشروط معافی مانگی گئی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنا غیر مشروط معافی والا جواب عدالت میں پڑھ کر سنا دیں، وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں مصطفیٰ کمال کا جواب پڑھ کر سنا دیا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفی کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پر معافی مانگی ہے۔

وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ مصطفی کمال نے پریس کانفرنس زیر التوا اپیلوں سے متعلق کی تھی، مصطفی کمال نے بالخصوص 16مئی کی پریس کانفرنس پر معافی مانگی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ اپیلیں وفاقی شرعی عدالت میں نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہوکر پریس کانفرنس کی، فروغ نسیم نے جواب دیا کہ نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ چیف جسٹس بولے کہ مصطفی کمال معافی بھی مانگ رہے ہیں اور یہ بھی کہ رہے ہیں کہ توہین عدالت نہیں کی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ وہ عدالتوں کی عزت کرتے ہیں اور خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ رہے ہیں۔

ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کرے تو کوئی فائدہ نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے متعلق استفسار کیا کہ ان کے وکیل کہاں ہیں۔ جس پر ان کے وکیل معیز احمد روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ہمارا گزشتہ سماعت کا حکم نامہ کیا تھا دکھائیں۔ فیصل واوڈا صاحب آپ تو سینیٹ یعنی اپر ہاؤس کے ممبر ہیں، سینیٹ ممبران کو تو زیادہ تہذیب یافتہ تصور کیا جاتا ہے، چلیں پہلے مصطفیٰ کمال کا معاملہ دیکھ لیں پھر آپ کو بھی سنتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ میں عدلیہ کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک آئینی ادارہ ہے، قوم کو ایک قابلِ احترام عدلیہ اور فعال پارلیمنٹ چاہیے، ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کرے تو کوئی فائدہ نہیں۔ یہ کوئی انا کا مسئلہ نہیں لیکن آپ پارلیمان کے ممبر ہیں۔

’آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے‘۔

کیا گالی گلوچ ان کا دینی فریضہ ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس نے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق آرٹیکل انیس اے، کچھ چیزوں کے ساتھ مشروط ہے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے آرٹیکل انیس اے پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں ایک لفظ استعمال ہوا ہے تہذیب، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کو گالی گلوچ کرکے دباؤ ڈال کے فیصلے لے لیں گے، کیا گالی گلوچ ان کا دینی فریضہ ہے؟ دینی تو چھوڑیے کیا گالی گلوچ تہذیب کے دائرے میں بھی آتی ہے۔

اگر ہم درست فیصلے نہیں کرتے تو ہمارے خلاف ریفرنس دائر کریں، چیف جسٹس

’امام مالک نے کہا تھا کہ اختلاف رائے ایسے کرو گویا اگلے کے سر پر چڑیاں بیٹھی ہیں اور وہ ہلنے بھی نہ پائیں، ہمیں توہین عدالت نوٹسز جاری کرنے کا شوق نہیں، آئین میں لکھا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اللہ کی طرف سے امانت ہے اور پارلیمنٹیرینز یہ مقدس امانت استعمال کرتے ہیں، ہمارا کام فیصلے کرنا ہے، ہمارا فرض ہے کہ جلد از جلد فیصلے کریں، اور پارلیمنٹ جلد از جلد قانون سازی کرے، اگر لوگوں میں شبہہ پیدا کیا جائے گا کہ جج بے ایمان ہیں، اور فیصلے درست نہیں کرتے تو اس کے لیے ایک راستہ ہے ہمارے خلاف ریفرنس دائر کریں‘۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا ہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے پر بٹھایا ہے؟ ہم نے نہیں کہا ہمارے فیصلوں پر تنقید نہ کریں، فیصل واوڈا کے وکیل کی بڑی شرعی شکل ہے، اللہ کرے ہمارے اعمال بھی شرعی ہو جائیں۔

وکیل معیز احمد نے کہا کہ مجھے متعلقہ آیات یاد نہیں ہیں، چیف جسٹس بولے کہ ہمیں علم ہی نہ ہو کہ قرآن میں اس بارے کیا ہے تو کیا کریں، ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوج کو ترویج دیتے ہیں، ٹی وی چینل کہہ دیتے ہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے، ٹی وی چینلز نے 34 منٹ تک یہ تقاریر نشر کیں، کیا اب ان ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کریں۔ اٹارنی جنرل بولے کہ میرے خیال میں نوٹس بنتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیا ہے کہ کورٹ کی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی۔

یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی ، چیف جسٹس کے ریمارکس

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل بولے کہ ججز کی دوہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی، ججز کے کنڈکٹ پر بات کرنا توہین عدالت میں آتا ہے، اتارنی جنرل نے جواب دیا کہ ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔ پارلیمنٹ میں بھی ججز کے کنڈکٹ کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔

’عدالت کو بھی اس طرح ایوان کی کارروائی کا اختیار نہیں، دونوں ملزمان کو یاد دلانا چاہتاہوں کہ ارکان پارلیمنٹ ہیں، رکن پارلیمنٹ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا جو پارلیمنٹ کا ہی بنایا گیا قانون ہے‘۔

ٹی وی چینلز نے اپنا پلیٹ فارم مہیا کرنا چھوڑ دیا تو معاملہ ختم ہو جائے گا، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی وی چینلز نے اپنا پلیٹ فارم مہیا کرنا چھوڑ دیا تو معاملہ ختم ہو جائے گا، 2 ججز کے بارے ایسی باتیں بولی گئیں اور ٹی وی چینلز نے نشر کیا، توہین عدالت پر سزا کے ساتھ ایک لاکھ جرمانہ ہے، چیف جسٹس بولے کہ ایک بیان میں کوئی 10 بار توہین کرے تو جرمانہ 10 لاکھ ہوگا؟ وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جرمانہ ایک لاکھ روپے ہی ہوگا۔

چیف جسٹس نے وکیل معیز احمد سے استفسار کیا کہ آپ معافی نہیں مانگنا چاہتے، فیصل واوڈا کے وکیل بولے کہ جواب جمع کروایا ہے، عدالت میں پڑھنا چاہتا ہوں، آپ کے کلائنٹ نے کہا کیا؟ پہلے دیکھتے ہی توہین عدالت بنتی یا نہیں، جس پر وکیل معیز احمد نے کہا کہ میں اس پریس کانفرنس کے بعد ہونے والے سوال جواب پڑھنا چاہتا ہوں، جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ آپ نے صحافی کے جواب میں واضح کہا کہ جسٹس بابرستار اور جسٹس اطہرمن اللہ کے خلاف بات کرنے آیا ہوں۔

فیصل واوڈا معافی مانگیں گے یا نہیں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں؟ فیصل واوڈا بولے کہ مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔

چیف جسٹس نے فیصل واوڈا پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی، آپ نے کس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا، چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں سوشل میڈیا پر بڑی بڑی پوسٹس کر جاتے ہیں، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تو نہ بولیں، صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی ہے۔

چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کو ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے شوکاز نوٹس پر دوبارہ جواب طلب کرلیا، ساتھ ہی مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی۔ جس کے بعد عدالت نے سماعت 28جون تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp