اس کی خودکُشی کی روح فرسا خبر سن کر سب سکتے کے عالم میں تھے۔ اس نے کیوں اپنی جان لینے کی کوشش کی؟ کسی کو خبر کیسے نہ ہوئی؟ کب سے اور کون سے کرب میں وہ مبتلا تھی؟ ایسے کئی سوالات تھے جو سب کے ذہنوں میں کلبلا رہے تھے۔
پانچ سال قبل اس کے ماں باپ نے تب اس کی شادی زبردستی کروا دی جب وہ ابھی صرف اٹھارہ برس کی تھی۔
بیاہ کر وہ گاؤں سدھار گئی کہ اس کا سسرال وہیں تھا اور شوہر کھیتی باڑی اور مال مویشی کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
میرا سال بعد جب بھی گاؤں کا چکر لگتا تو وہ حسبِ معمول باورچی خانے میں گھسی ہوتی، اور ہمارے براجمان ہوتے ہی کسی حاضر باش خادم کی طرح ٹرے میں شربت کے گلاس سجائے آن دھمکتی۔
شادی کے شروع سال میں اس کی آنکھیں اداسی کی داستان سناتی نظر آتی تھیں، جو بتدریج ویران اور احساسات سے عاری ہوتی گئیں۔
محض چار سال میں اوپر تلے ہونے والے تین بچوں کی پیدائش نے اس نازک سی لڑکی کو نچوڑ کر رکھ دیا تھا، پھر گھر بھر کی ہانڈی روٹی اور تندور کی جھلسا دینے والی تپش نے اس کے پھول سے چہرے کو کُملا کر رکھا دیا۔ چہرے کی شادابی سیاہ چھائیوں میں کہیں گم ہوگئی تھی۔
یوں گاؤں میں تمام لوگ ہمیشہ تپاک سے ملتے تھے، تاہم اس لڑکی نے کبھی گرمجوشی نہیں دکھائی لیکن میں اس کے استقبال کو سرد مہری سے بھی تعبیر نہیں کر پائی۔
اس کے بے تاثر چہرے کو دیکھ کر ایک انجانا سا خوف گھیر لیتا تھا کہ اس کے اندر کوئی طوفان برپا ہے۔ خودکشی کی کوشش اسی طوفان کا پیش خیمہ ہی تو تھی۔ اس میں اتنی حیرانی کیسی؟
ہمارے سماج میں اکثر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی زندگی کے بڑے فیصلے ان کے بڑے ہی کرتے آئے ہیں۔ نہ جانے کتنے نوجوانوں نے اپنے سینے میں ایسے طوفان چھپا رکھے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس میں ہمت تھی ایک ایسی زندگی کو ختم کرنے کی جو کبھی اس کی تھی ہی نہیں۔
اپنی زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی؟ اور کون اپنی پوری زندگی ایسے انسان کے ساتھ گزارنا پسند کرے گا جسے وہ پسند ہی نہ کرتا ہو، مگر سوال یہ ہے کہ جسے وہ پسند کرتا ہے کیا اُسے آسانی سے اپنا بھی سکتا ہے؟ وہ اپنی مرضی اور منشا سے اسے جیون ساتھی چن سکتا ہے؟
اس سادہ سے سوال کا جواب خاصا پیچیدہ ہے۔ اس لیے کہ جہاں ’محبت کی شادی‘کا ذکر آتا ہے وہیں فوراً ہی یہ سننے کو مل جاتا ہے:
’ہم عزت دار لوگ ہیں ہماری اولادیں ان خرافات سے دور ہیں‘
’ہمارے خاندان میں والدین کی مرضی سے رشتے طے ہوتے ہیں‘
’محبت کا کیا ہے ہو جائے گی ساتھ رہتے رہتے‘
یہ اور اس قبیل کے دسیوں تبصرے ہمارے سماج میں سننے کو مل جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر گھرانوں میں لڑکوں کو تو یہ تک باور کروایا جاتا ہے کہ افیئر جس سے چاہو چلا لو مگر خبردار شادی خاندان کی مرضی سے ہی کرنی ہوگی۔
یہ اسی گھریلو تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کو محبت اور شادی کا جھانسا اس وقت تک دیتے رہتے ہیں جب تک کہ والدین اپنی مرضی سے بیٹے کے لیے لڑکی نہیں ڈھونڈ لیتے۔ اس کے بعد اللہ اللہ خیر سلا۔
عزیزوں میں ایک آنٹی کے پوتے نے پسند کی شادی کی تو گھر والے احباب و رشتے داروں کو یہ تاثر دینے میں جُٹ گئے کہ یہ شادی محبت کی نہیں ہے بلکہ خالصتاً والدین نے طے کی ہے۔ جب کہ اس صاحبزادے کا فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹ گزشتہ دو برس سے جو کہانی سنا رہا تھا اُس کا نتیجہ اب شادی کی صورت میں سب کے سامنے تھا۔
میں نے آنٹی کو حتیٰ الامکان سمجھانے کی کوشش کی کہ پسند اور محبت کی شادی ایک اچھی روایت ہے اور اسے فروغ دینا خوش آئند بات ہے ۔سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آپ سب بھی اس شادی پر راضی اور خوش ہیں۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ ہمارے خاندان میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔
کاروباری امیر گھرانوں میں شادی ایک اقتصادی معاملہ ہوتا ہے، جس میں تمام خاندان کا مفاد کار فرما ہوتا ہے سوائے ان دو انسانوں کے جنہیں پوری زندگی ایک ساتھ گزارنی ہوتی ہے۔
یہ مفادات مشترکہ کاروبار اور زمینیں ہوتی ہیں، جن کی بنا پر دو ایسی زندگیوں کو زبردستی شادی کے بندھن میں جکڑ دیا جاتا ہے جن کی آپس میں کبھی کوئی نسبت نہیں رہی ہوتی۔
اکثر خاندانوں میں رشتہ داری اور برادری سے باہر محبت کی شادی کرنے والے جوڑوں کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں عزت کے نام پر قتل کرکے فخر کیا جاتا ہے۔
محبت کی شادی کی اصطلاح اب صرف جنوبی ایشیا میں استعمال ہوتی ہے۔ تاہم محض سو سال پہلے تک یورپ اور امریکا میں بھی والدین ہی اپنی اولاد کی شادیوں کے فیصلے کرتے تھے، لیکن حقوق نسواں کی تحریک کے نتیجے میں عورت کی پسند کی شادی کا حق تسلیم کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ اب مہذب ممالک میں بنا مرضی کی شادی کو ’میریٹل ریپ/ ازدواجی زیادتی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
ہمارے والدین کیوں اپنی اولاد کو ایک بے جان اور فالتو شے سمجھ کر ان پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں؟ کیوں اپنی اولاد کے محبت کے رشتوں کو قبول نہیں کر پاتے؟ بلکہ اس کے برخلاف والدین اپنی اولاد پر اپنی مرضی تھوپتے اور ان کی مرضی کے خلاف شادی کروا کر شادیانے بجاتے اور دھمال ڈالتے ہیں ۔
ایسی شادیاں دونوں افراد پر سراسر ظلم کے زمرے میں آتی ہیں۔ من پسند شادی نہ ہونے کا خمیازہ ناصرف دو افراد زندگی بھر بھگتے ہیں بلکہ ان کی آنے والی نسل پر بھی اس کے منفی مرتب ہوتے ہیں۔
بنا پسند کے تو آج کل کوئی ایک سوٹ لینا گوارا نہیں کرتا چہ جائیکہ اس کی پسند و نا پسند کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی زندگی بھر کے ساتھی کے انتخاب کا اختیار کسی اور سونپ دیا جائے۔
شادی کےرشتے میں بندھنے سے پہلے اگر دو افراد کا آپس میں محبت، جذبات اور احساسات کا رشتہ ہو تو فطری سی بات ہے کہ زندگی کا سفر حسین ہو جاتا ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دلی آسودگی محسوس کرتے ہیں۔
اس کے باوجود شادی بہرحال ایک جوّا ہی ہے محبت کی شادیوں کا انجام بھی اکثر غیر متوقع ہو سکتا ہے، لیکن کم از کم دونوں افراد کو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا اور اس کا ذمہ دار یا مجرم وہ کسی اور کو نہیں ٹھہراتے یا ٹھہرا سکتے۔
بہرحال آج کے دن تک کی حقیقت تو یہ ہے کہ ہم جس سماج کا حصہ ہیں وہاں مرضی کی شادی تو ایک طرف رہی سرپرست اپنا دھن دولت بچانے کے لیے اس اکیسویں صدی میں بھی لڑکیوں کی شادی قرآن پاک سے کر دیتے ہیں۔
پھر جس معاشرے میں لڑکیوں کی جبراً شادی محض لیے کر دی جاتی ہے کہ کہیں وہ اپنی پسند کی شادی نہ کرلیں، وہاں آپ کیسے انسانی حقوق پر عملداری کی امید رکھ سکتے ہیں؟ ایسے سماج میں صرف عزت کے نام پر جان لی جا سکتی ہے، خودکشیوں کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ اس سماج میں یہ سوال ہی کتنا عجیب ہے کہ ’کیا شادی محبت کی ہے؟‘ میں پوچھتی ہوں کہ ’کوئی یہ بتائے کہ ’کیا شادی نفرت کی بھی ہو سکتی ہے؟‘