پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود مارکیٹ میں دکاندار ان تھیلیوں کا استعمال معمول کے مطابق کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
وی نیوز کے استفسار پر دکانداروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیوں کے حوالے سے پابندی کی بات چل رہی ہے مگر وہ ان کے استعمال کو چاہ کر بھی ترک نہیں کر سکتے کیونکہ گاہک بغیر تھیلی کے سامان لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
کچھ دکانداروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر تھوڑے عرصے بعد ایسی باتیں سامنے آتی ہیں مگر ان پر عملدرآمد بالکل نہیں ہوتا یہ استعمال ہورہی ہوتی ہیں اور کوئی پوچھتا تک نہیں کیوں کہ شاید اس کی ایک وجہ اس کا متبادل نہ ہونا ہے اور جو موجود ہے وہ دکانداروں کی قوت خرید سے باہر ہے۔
پلاسٹک بیگز پر پابندی کیوں لگائی گئی ہے، حکومت اس پر عملدرآمد کروانے میں ناکام کیوں رہتی ہے اور اس کے علاوہ دکانداروں کے لیے سستے متبادل کیا ہیں۔ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے وزارت ماحولیاتی تبدیلی سے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم دکانداروں کی جانب سے پلاسٹک کی تھیلیوں کو ترک نہ کرنے کی مختلف وجوہات بتائی گئیں۔
’پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والی فیکٹریاں بند کردیں ان کا استعمال بھی ختم ہوجائے گا‘
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ حکومت اس کام کی شروعات ان بڑے کاروباری افراد سے کرے جن کی شاپرز بنانے کی بڑی بڑی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں اس سے خود بخود بازار میں پلاسٹک کی تھیلیاں ختم ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم خود بھی اس حق میں ہیں کہ ان تھیلیوں کا استعمال ترک کر دیا جائے لیکن ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ڈسپوزیبل تھیلیاں بہت مہنگی پڑتی ہیں۔
ڈسپوزیبل بیگ پلاسٹک کی تھیلی سے 10 گنا مہنگا
دکاندار کا کہنا تھا کہ ایک ڈسپوزیبل تھیلی تقریباً 10 روپے تک کی ہے جبکہ پلاسٹک کی تھیلی ایک روپے سے بھی کم کی پڑتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خریداروں کے رویے میں بھی تبدیلی ہونی چاہیے تاکہ وہ یہاں آکر کوئی ضد نہ کریں بلکہ اپنے گھر سے کپڑے کی تھیلیاں لے کر آئیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ ڈسپوزیبل تھیلیوں کا استعمال شروع کرتے ہیں تو گاہک تھیلی کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لیے ہمارے پاس بھی پلاسٹک بیگز کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں بچتا۔
کراچی کمپنی میں کپڑوں کی دکان پر کام کرنے والے ایک صاحب کا یہ کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ماحول کے لیے بہت خطرناک ہے اور وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ اس کا استعمال مکمل طور پر بند ہو جائے مگر یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ان کے بننے پر پابندی عائد نہیں ہوتی اور ان کا سستا متبادل سامنے نہیں آجاتا۔
حکومت کی جانب سے پلاسٹک بیگز پر پابندی لگانے کی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی ماحول کو بری طرح متاثر کر رہی ہے اور پاکستان سمیت پوری دنیا ماحولیاتی تغیرات کی زد میں ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پلاسٹک کی تھیلیوں میں کھانا پیک کیے جانے کی وجہ سے وہ کھانا صحت کے لیے بھی بہت زیادہ مضر ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پلاسٹک کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحول، جانوروں اور انسانی صحت سب کے لیے ضرر رساں ہے۔
پلاسٹک تحلیل ہونے میں ہزار برس بھی لگ سکتے ہیں
کلائمیٹ ایکسپرٹ محمد عثمان علی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی لگنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تھیلیاں جس میٹیریل سے بنتی ہیں وہ گل سڑ نہیں سکتا کیوں کہ یہ کچرا صدیوں تک باقی رہتا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ریسرچ کے مطابق پلاسٹک مکمل تحلیل ہونے میں 100 سے 1000 برس لیتا ہے۔
اگر ان کو گلا دیا جائے یا جلا بھی دیا جائے تو ان سے زہریلی گیسز خارج ہوتی ہیں جو کینسر کا سبب بنتی ہیں اور جب یہ پلاسٹک مائیکرو پلاسٹک کا اخراج کرتے ہیں جو سمندر میں جاتا ہے تو وہاں موجود آبی حیات کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔
حکومت اور عوام دونوں کو کیا کرنا چاہیے؟
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کی تھیلیوں کا متبادل وہی چیز ہے جو ہر طرح سے تحلیل ہو سکے، انسانی صحت کے لیے مضر نہ ہو اور ماحول دوست ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈسپوزیبل بیگز جو بڑے اسٹورز استعمال کر رہے ہیں وہ بہترین متبادل ہے لیکن یہاں حکومت کو یہ چاہیے کہ وہ دکانداروں کو یہ بیگز انتہائی سستے ریٹس پر مہیا کرے۔
عثمان علی نے کہا کہ لوگوں کو بھی یہ چاہیے کہ وہ کپڑے کے تھیلے بنا لیں اور خریداری کے وقت استعمال کریں جو کہ سب سے بہترین حل ہے۔