انسانی سماجی زندگی کی پیچیدگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن والدین کی طرف سے نادانستہ طور پر پیدا کی جانے والی پیچیدگیاں بسا اوقات ڈرامائی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر یہ سوال بچوں کے کانوں میں گونجتا ہے، “میں نے تمہیں اس دن کے لیے بڑا کیا تھا؟” یہ سوال ہمارے معاشرے کے اس عام تصور پر دلالت کرتا ہے کہ بچے والدین کی زندگی کی سرمایہ کاری ہیں اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں گے۔ اس نقطہ نظر سے والدین بچوں کی پرورش اور تربیت کو ایک مالی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتے ہیں، جس سے انہیں مستقبل میں فائدہ ملے گا۔
مختلف ثقافتوں میں والدین کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں اور یہ ثقافت، روایات اور سماجی اصولوں کی بنیاد پر تیار ہوتے ہیں۔ جہاں ہمارے معاشرے کے طور طریقوں میں خامیاں ہیں، وہیں کچھ فائدے بھی ہیں۔ چلیں پہلے فوائد پر بات کرتے ہیں، جیسے خاندان کے ساتھ گہری وابستگی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ وابستگی بچوں کو ایک ‘کمیون’ کا احساس دلاتی ہے جس سے ان میں حفاظت اور سہارے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جب والدین کسی کام سے باہر جاتے ہیں، تو بچے اکثر اپنے خاندان کے کسی بڑے، جیسے نانا نانی یا دادا دادی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس سے بچے کو نہ صرف خاندان کی محبت اور سہارے کا احساس ملتا ہے بلکہ وہ بزرگوں سے مختلف تجربات اور روایات بھی سیکھتے ہیں۔
بچوں کی تربیت اور پرورش ایک نہایت اہم اور حساس عمل ہے۔ سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچے کی ابتدائی زندگی کے 3 سال اس کی آئندہ زندگی کے بنیادی خدوخال طے کرتے ہیں۔ حاملہ ہونے کے دوران ماں کے طرز زندگی اور رویے بھی بچے کی ذہنی نشوونما پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے بہت جلد سیکھنے اور سمجھنے لگتے ہیں۔ تو یہ لازمی ہے کہ بچوں کے سامنے مثبت اور بہتر رویہ اپنایا جائے کیونکہ بچے ہر عمل اور بات کو جذب کر رہے ہوتے ہیں۔
دیسی گھرانوں میں بچوں کا ان کے ساتھیوں یا بہن بھائیوں سے موازنہ کرنا ایک عام رواج ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد بچوں کو حوصلہ دینا ہوتا ہے، لیکن یہ طریقہ کار صحیح نہیں ہے۔ اس طرح کے موازنے سے بچوں کی خود اعتمادی مجروح ہوتی ہے اور ان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو کہ اصلاح کے بجائے نقصان دہ نتائج کو فروغ دیتے ہیں۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے وقت انفرادی خصوصیات اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھنا زیادہ بہتر ہوگا اور انہیں اپنی منفرد پہچان بنانے کا موقع دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر، بجائے اس کے کہ بچے کا موازنہ کسی اور سے کیا جائے، اس کی اپنی کامیابیوں پر تعریف کریں۔
“میں تمہارا والد ہوں جو میں کہہ رہا ہوں وہی صحیح ہے”۔ ‘دیسی والدین’ بچوں کو فرمانبردار اور تابعدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ نظم و ضبط ضروری ہے، لیکن آمرانہ انداز بچے کی آزادی، تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی سوچ کی صلاحیتوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ خوف پر مبنی فرمانبرداری اور احترام پر زور دینے سے بچوں میں حقیقی سمجھ اور احترام کے بجائے خوف پیدا ہوتا ہے۔ یہ خوف والدین اور بچوں کے درمیان رابطے میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے اور بچے اپنی مشکلات اور خیالات کا اظہار کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچوں کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ ایک دوستانہ اور احترام پر مبنی تعلق قائم کرنا اتنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بچوں کو سننے اور ان کی رائے کو اہمیت دینے سے ان میں خود اعتمادی اور آزادی کا احساس پیدا ہوگا۔
ہر نسل اپنی مشکلات کے حل اور آسانی کے لیے اپنے طریقے سے کوشش کرتی ہے۔ ایک طرف جہاں پرانی نسل اپنے وقت کی تاریخی و سماجی حقیقتوں کو سمجھ کر اپنے فیصلے کرچکی ہوتی ہے، وہیں نئی نسل کا نقطہ نظر مختلف ہوتا ہے۔ اور اس نقطہ نظر کا احترام اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی بچے کو کھانا کھلانا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی باتوں کو سنجیدگی سے سنیں اور ان کی رائے کا احترام کریں۔ اس سے بچے خود اعتماد اور ذمہ دار ہوں گے۔