اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلا رہے ہیں اور خصوصاً لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کررہے ہیں۔
مزید پڑھیں
یونسیکو کی ’لڑکیوں کی شرائط پر ٹیکنالوجی‘ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے تعلیم و تربیت کے عمل کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارمز کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، سوشل میڈیا کو تعلیم اور پیشہ ورانہ اعتبار سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔
انسٹا گرام اور ٹک ٹاک
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کے لیے غیرصحت مند طرزعمل یا غیرحقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔
رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے جسم کے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
سائبر غنڈہ گردی اور ڈیپ فیک
یونسیکو رپورٹ کے مطابق، لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کو آن لائن غنڈہ گردی کا زیادہ سامنا ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال عمر تک کی لڑکیوں کو کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہوچکا ہے۔
جبکہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کلاس رومز میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
یونسیکو کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ ان کا ایسی آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے بھی واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔
خواتین کی ترقی میں ’ڈیجیٹل‘ رکاوٹ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے منفی صنفی تصورات لڑکیوں کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔
ان شعبوں پر زیادہ تر مردوں کا اجارہ ہے جس کےباعث لڑکیاں ایسے ڈیجیٹل ذرائع کی تخلیق کے مواقع سے محروم رہتی ہیں جو ان دقیانوسی تصورات کے خاتمے میں مدد دے سکتے ہیں۔
پالیسی سازی کی ضرورت
جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی میں مردوں کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کے لیے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میں نصف ہی لڑکیوں اور خواتین کے لیے مددگار ہیں۔
یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کے لیے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ لڑکیوں کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔