شفاف الیکشن کیوں ایک خواب بنتا جارہا ہے؟

پیر 10 جون 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں انتخابات کا عمل ہر گزرتے وقت کے ساتھ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے بلکہ ملک میں سیاسی استحکام لانے کے بجائے یہ انتخابات سیاسی انتشار کا مؤجب بن رہے ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ تمام تر قانون سازیوں اور غیر جانبدار نگران حکومت کی موجودگی کے باوجود کوئی بھی سیاسی جماعت نتائج تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو خدانخواستہ یہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بجائے مزید کمزور کردے گا اور لوگوں کا اعتبار اس پورے انتخابی مرحلے سے اٹھ جائے گا۔ لیکن افسوس الیکشن کمیشن اپنی ماضی کی غلطیوں سے اب تک سبق نہیں سیکھ پایا۔

سوال یہ ہے کہ آخر انتخابی عمل کو کیسے غیر متنازعہ بنایا جائے؟ کیا ہم ہندوستان کے انتخابی تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال کرکے انتخابی دھاندلی کا کوئی توڑ نکال سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابی دھاندلی کی شکایت پولنگ ڈے پر نہیں بلکہ ووٹوں کی گنتی اور نتائج مرتب کرتے وقت لگائی جاتی ہیں۔ جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے ایک پائلٹ پراجیکٹ کے ذریعے ای وی ایم کا تجربہ کیا تھا جو شاید کامیاب نہیں ہوا۔

امریکا، یورپی ممالک یا کسی بھی اور ترقی پذیر ملک میں الیکشن شاید ہی اتنے متنازعہ ہوتے ہوں جتنے پاکستان میں ہوتے ہیں۔ ہر دور میں قانون سازی کرکے انتخابی اصلاحات لائی جاتی ہیں مگر سب بے سود۔ آخر شفاف الیکشن کا نسخہ کہاں سے ڈھونڈیں جس سے تمام سیاسی جماعتیں شفا پائیں؟ کیا فوج، انتظامیہ یا عدلیہ میں سے کسی ایک کے زیرِ نگرانی شفاف الیکشن کروائے جاسکتے ہیں؟ اس کا اب تک جواب نفی میں ہی ملتا ہے۔

ماضی قریب ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 2013 کے انتخابات عدلیہ کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسران کی زیرِ نگرانی ہی کروائے گئے تھے۔ لیکن اس وقت عمران خان نے ان الیکشنز کی شفافیت پر نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف باقاعدہ ایک ہتک آمیز مہم چلائی۔

35 پنکچر والا نعرہ عمران خان نے انہی الیکشنز کے بارے میں لگایا تھا کہ پنجاب میں 35 حلقوں میں دھاندلی کی گئی۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے ایک کمیشن کے سامنے ان انتخابات کو چیلنج کیا تھا۔ گوکہ سپریم کورٹ نے بھی کسی قسم کی منظم دھاندلی کے الزام کو مسترد کردیا تھا لیکن اس کے باوجود پورے انتخابی عمل کو متنازعہ ضرور بنایا گیا تھا۔ اسی طرح 2018 کے الیکشن فوج کی زیرِ نگرانی ہوئے تو نہ صرف سیاسی جماعتوں نے اس پر سوال اٹھائے بلکہ بھرپور احتجاج بھی کیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔

انتظامیہ کے ماتحت الیکشن 2024 کے علاوہ 1977 میں بھی منعقد کروائے گئے تھے لیکن 1977 کے حالات بالکل مختلف تھے۔ اس وقت پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کا مطالبہ تھا کہ انتخابات فوج اور عدلیہ کے زیرِ انتظام ہی کروائے جائیں۔ چونکہ الیکشن انتظامیہ کے ماتحت کروائے گئے تھے اس لیے یہ معاملہ زیادہ بڑھا۔ لیکن اس کے بعد جب 1979 اور 1983 کے بلدیاتی انتخابات فوج کی نگرانی میں کروائے گئے تو وہ متنازعہ ترین الیکشن قرار پائے تھے۔ ان تنازعات سے بچنے اور شفاف انتخابات کے لیے جنرل ضیاالحق نے ایک 4 رکنی کمیٹی بنائی جسے ظہور عادل کمیٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ظہور عادل کمیٹی نے اپنی سفارشات بنا کر جمع کروائی اور یہ سفارش کی کہ انتخابات فوج یا عدلیہ نہیں بلکہ انتظامیہ کے ماتحت کروائے جائیں۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ 1985 کے عام انتخابات اسی کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کروائے گئے اور قدرے غیر متنازعہ رہے۔ پاکستان میں انتخابات کروانے کا ہر قسم کا تجربہ ہوچکا اور اسی شفافیت کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے 90 کی دہائی میں غیر جانبدار نگران حکومتوں کا قیام عمل میں آیا لیکن نتیجہ وہی زیرو۔

الیکشن کے حوالے سے بہترین قوانین موجود ہیں اور 2017 کا الیکشن ایکٹ صاف شفاف الیکشن کروانے کے حوالے سے ایک مکمل اور جامع لائحہ عمل فراہم کرتا ہے لیکن مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ ہمارے سیاسی کلچر کا ہے۔ ہر سیاسی جماعت الیکشن کے وقت آئین و قانون کے بجائے امپائر کی خوشنودی اور اپنے حق میں انگلی اٹھنے کی منتظر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کے ہوتے ہوئے بھی ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ کس ادارے کے زیرِ انتظام کروائے گئے الیکشن صاف اور شفاف ہوں گے کیونکہ ہر ادارے کے اوپر پہلے ہی انگلیاں اٹھ چکی ہیں۔

اگر الیکشن کمیشن واقعی چاہتا ہے کہ انتخابات غیر متنازعہ ہوں تو اسے باقی اداروں کے بجائے اپنے ادارے کی کارکردگی اور ساتھ قانون کی عملداری یقینی بنانی ہوگی، کیونکہ اس کے پاس وہ سب اختیارات ہیں جو صاف شفاف الیکشن کروانے کے لیے ضروری ہیں۔ عدلیہ کو انتخابی معاملے میں نہ گھسیٹا جائے کیونکہ الیکشن کے بعد جب انتخابی تنازعات اور عذر داریاں جمع کروائی جاتی ہیں تو وہ ہمیشہ معاملات عدلیہ ہی کے پاس آتے ہیں۔ اس لیے عدلیہ کو ایک نیوٹرل امپائر کے طور پر ہی رہنے دیں۔ اسی طرح فوج کو بھی انتخابی عمل سے دُور ہی رکھیں اورالیکشن کمیشن صرف اور صرف اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قانون پر عملداری یقینی بنائیں باقی کام خود بخود ٹھیک ہوتے جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp