اور اب پیش ہے گریٹ وال آف چائنا

منگل 11 جون 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ دنیا میں سب سے خوفناک ہتھیار کیا ہے جس سے ہر اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور سلطنت لرزہ بر اندام رہتی ہے اور جس ہتھیار کا آج تک کوئی توڑ نہیں کر سکا؟  وہ ہتھیار ہے سوال۔ بروقت اور درست سوال کو قید کرنے کی کوشش پہلی انسانی سلطنت سے آج تک جاری ہے۔

ڈینش لکھاری اینڈرسن کی کہانی ’بادشاہ ننگا ہے ‘  ہر کسی کو ازبر یاد ہو گی یا کبھی بچپنے یا لڑکپن میں سنی ضرور ہو گی۔جب رعایا قطار اندر قطار شاہی سواری پر براجمان بادشاہ کے نئے نویلے لباس کی تعریف کر رہی تھی تو ہجوم میں کھڑے ایک معصوم بچے نے بس اتنا کہا تھا ’مگر بادشاہ تو ننگا ہے ’۔

 اس ایک معصوم جملے نے سارا دبدبہ ہوا میں اڑا کے رکھ دیا اور مجمع میں یہ بات پھیلتی چلی گئی۔ بچہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے۔ ہم کون سے لباس کی تعریف کر رہے ہیں۔ بادشاہ کے تن پر تو کوئی لباس ہی نہیں۔

کون سی ایسی بادشاہت ہے جس نے سوال کو روکنے اور منہ بند کرنے کی کوشش نہیں کی اور کون سی بادشاہت ہے جس نے منہ کی نہ کھائی ہو۔

بہت دور جانے کی ضرورت ہی نہیں۔شاہ ایران کے دور میں کون مائی کا لال چوک میں کھڑا ہو کر ’مرگ بر شاہ‘ کا نعرہ لگا سکتا تھا؟  کیا شاہ کے بدنامِ زمانہ داخلی سلامتی کے ادارے ’ساواک‘ نے سوال کا منہ کامیابی سے بند نہیں کیا تھا؟

 کیا ایران میں انیس سو تریپن میں منتخب وزیرِ اعظم ڈاکٹر مصدق کی برطرفی کے چھبیس برس بعد تک ہو کا عالم نہیں تھا۔کیا شاہ کی اسٹیبلشمنٹ کے ریکارڈ میں ایک ایک مخالف کے کنبے اور نقل و حرکت کا مکمل اتا پتا نہیں تھا؟ کیا کوئی ایسا فون تھا جسے ’ساواک‘ نہ سنتی ہو؟

 کیا جمی کارٹر نے انیس سو اٹھہتر میں تہران میں کھڑے ہو کر نہیں کہا تھا کہ ایران بدامنی کے خطے میں امن کا جزیرہ ہے؟  تب تو ٹویٹر، فیس بک، یو ٹیوب، انسٹا گرام، ٹک ٹاک کجا موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی نہیں تھا؟ تو پھر کیا ہوا؟ سارا نظام تاش کے پتے کی طرح دنوں مہینوں میں کیسے بکھر گیا؟

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ سوویت ایمپائر نے سوال کے ہتھیار کو قابو میں رکھنے کے لیے کیسا فول پروف اوپر سے نیچے تک انتظام کر رکھا تھا؟ سوویت ایمپائر کہاں گئی؟

ایوب خان کے دور میں کون سا اخبار تھا جو محکمہ اطلاعات کے چنگل میں نہیں تھا؟ پھر انیس سو اڑسٹھ میں کیا ہوا؟  کیا انیس سو اکہتر میں سیکرٹری اطلاعات روئیداد خان نے میڈیا پر کالا کمبل نہیں ڈالا تھا؟ تاکہ مشرقی پاکستان سے آنے والی کوئی بھی خبر مقتدرہ کی چھلنی سے گزرے بغیر  شائع نہ ہو سکے؟ پھر کیا ہوا؟ کیا اطلاعاتی جکڑ بندی نے متحدہ پاکستان کو بکھرنے سے بچا لیا؟

 کیا سکریٹری اطلاعات جنرل مجیب  کی گریٹ وال آف سنسر نے انیس سو اسی کے عشرے میں ایک سے ایک لطیفے کی سینہ گزٹ ٹریفک روک کے دبدبے کی دیوار میں شگاف ڈلنے کے عمل اور اسی کے عشرے کے پاکستان کے بارے میں مورخ کی رائے بدل دی؟

دو ہزار پندرہ سے لاگو پیکا قوانین سائبر اسپیس کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک منتخب جمہوری حکومت کے ہاتھوں لاگو کروائے گئے؟ تو کیا ان قوانین نے بدتمیز سوشل میڈیا کے پیروں میں کوئی ایسی زنجیر ڈال دی جو ٹوٹ نہ سکے۔ پنجاب میں اب ہتکِ عزت کا جو قانون بلڈوزر پر رکھ کے لاگو کیا گیا ہے اور جسے عدالت میں چیلنج بھی کیا جا چکا ہے، کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ منہ پر تالا پڑ جائے گا؟ منہ پھٹ لوگوں کی زبان سل جائے گی؟

کئی برس پہلے کینیڈا کی ایک کمپنی سے سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے ایک جدید سسٹم خریدا گیا۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے ) کے ذریعے ہزاروں ویب سائٹس کو بلاک کیا گیا اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ تین برس تک اس ملک سے یوٹیوب غائب رہی، اٹھارہ فروری سے ٹویٹر کی سہولت عام آدمی کی دسترس میں نہیں  ؟  ہر نازک دن یا ہفتے میں سوشل میڈیا کا بلیک آؤٹ معمول کی بات ہے، کچھ فرق پڑا ؟ حالات تھوڑے بہت سدھرے؟ مثبت نتائج حاصل ہوئے؟

اگر یہ سب ہتھکنڈے کامیاب ہو جاتے تو پھر کاہے کو  پچھلے ایک ماہ سے یہ خبریں گردش کر رہی ہوتیں کہ اب سوشل میڈیا کو موثر لگام دینے کے لیے گریٹ وال آف چائنا نامی فائر وال کی آزمائش مکمل ہو گئی ہے اور اسے اگلے چند ہفتوں میں پاکستانی سائبر اسپیس پر لاگو کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا اس دیوار میں ایسے چنا جائے گا جیسے مغلِ اعظم مہابلی نے انارکلی کو چنا تھا۔

اس کا سب سے بڑا مبینہ فائدہ یہ ہو گا کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مکمل بلاک کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ کسی بھی ’ملک دشمن، غدار، بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے مخالف یا چغد ‘  کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس بشمول وٹس ایپ تک حساس اداروں کو رسائی ہو گی اور ایسے عناصر کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال کے ان پر فردِ جرم عائد کی جا سکے گی یا بنا فردِ جرم ہی قلع قمع  کر دیا جائے گا۔

توقع ہے کہ اس عظیم فائر وال کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو کنٹرول کیا جا سکے گا؟ اس سسٹم کے نفاذ پر کتنی لاگت آئے گی؟ یہ سوال بے معنی ہے، جہاں قومی سلامتی کا معاملہ ہو وہاں خرچہ کیا دیکھنا۔

چلیے یہ بھی کر دیکھیے ۔ہو سکتا ہے  یہی سسٹم ناقابلِ تسخیر ثابت ہو۔ دعا ہے کہ گریٹ فائر وال پاک افغان سرحدی باڑھ سے زیادہ مضبوط ہو، جو کام تاریخ میں کوئی ایمپائر نہیں کر پائی شاید ہماری ایمپائر کر گزرے ۔

” سب کر لیجو پر کرنے کا کام مت کیجو ” ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp