مئی سے اگست تک سال کا وہ حصہ ہوتا ہے جب ملک بھر سے لوگ اپنے ملتانی دوستوں سے آم بھیجنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ امسال جون کے وسط تک بھی ملتان کے لوگ اپنے دوستوں کو آم ارسال نہیں کر پائے کیونکہ ابھی تک آم کی فصل اس طرح تیار نہیں ہوئی ہے جیسی ماضی میں ہوجایا کرتی تھی اور اس کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔
پچھلے کچھ برسوں سے دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور اسی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں جس سے فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔
سورج کی تپش سے آم جل چکے ہیں
مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان میں تعینات سائنٹیفک افسر عابد حمید نے وی نیوز کو بتایا کہ کسی بھی فصل کی کاشت میں موسم اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور بہت سی فصلیں سردیوں میں لگائی جاتی ہیں جو گرمیوں میں کٹائی کے لیے تیار ہو جاتی ہیں اور آم کی کاشت کا موسم بھی سردیوں کے اختتام پر شروع ہوتا ہے جبکہ گرمیوں کے ابتدائی مہینوں میں یہ پھل پک جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
عابد حمید نے کہا کہ معیاری آموں کی پیداوار کے لیے مناسب درجہ حرارت 23 سے 33 ڈگری کے درمیان ہوتا ہے لیکن رواں برس پارہ 50 ڈگری کی حد تک چلا گیا جس کی وجہ سے کئی آم ’سن برن‘ کا شکار ہو کر ضائع ہو چکے ہیں جس کے باعث اس سال آموں کی پیداوار میں نمایاں فرق نظر آنے کے امکانات ہیں۔
دیگر علاقوں میں بھی آم تیار نہیں ہوئے
صوبہ پنجاب میں آم کی زیادہ تر کاشت ملتان، بہاولپور، شجاع آباد، وہاڑی، مظفرگڑھ، ڈی جی خان، رحیم یار خان، خانیوال اور لاہور ڈویژن میں کی جاتی ہے اور یہ صوبہ ملکی پیداوار کا 79 فیصد حصہ پیدا کرتا ہے لیکن اس سال اب تک آم کی فصل اس طرح تیار نہیں ہوئی جس طرح ماضی میں ہوتی تھی۔
آم ایک طرف سے کالے پڑ گئے ہیں
محمد نبیل مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور فیلڈ اسسٹنٹ کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آم کی فصل اس بار موسمی شدت کی زد میں آ کر خراب ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آم ایک جانب سے کالے نشان پڑنے شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شدید گرمی کے سبب آم اوپر کے حصے سے پکنا شروع ہو جاتا ہے اور اس کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے جبکہ اس کا آدھا حصہ کچا رہ جاتا ہے۔
آم کی پیداوار میں 50 فیصد کمی
ماحولیاتی تبدیلی کے باعث موسم سرما سکڑتا جا رہا ہے اور دوسری جانب بہار کا موسم بھی موسم گرما میں بدل رہا ہے۔
موسم بہار شروع ہونے کے ساتھ ہی سرد لہر یا کئی علاقوں میں گرمی کی لہر کا سامنا پچھلے کچھ عرصے میں معمول بن چکا ہے۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے طارق خان آم کی پروسیسنگ اور ایکسپورٹ کے کام سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سالوں میں آم کی پیداوار لگ بھگ 1.6 ملین ٹن تھی اور اب اندازہ ہے کہ پیداوار اس سال گھٹ کر 1.2 ملین ٹن تک آسکتی ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سال آم کی مجموعی پیداوار میں 50 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے اور اس کی بڑی وجہ موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں ہیں۔
ان تبدیلیوں میں جنوری اور فروری کے مہینوں میں سورج کا نہ نکلنا، اپریل میں کولڈ ویو کا اثر، تیلہ کی افزائش، ہیٹ ویو اور اس کے فوراً بعد تیز آندھیوں کا چلنا شامل ہیں۔ ایسی صورتحال میں آم کی ہر قسم پر ہی اثر پڑا ہے اور ان میں سندھڑی اور چونسہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔