عدلیہ کی مقننہ اور انتظامیہ میں مداخلت، پنجاب اسمبلی میں قرارداد منظور

پیر 10 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں عدلیہ کی مقننہ اور انتظامیہ میں مداخلت پر قرارداد منظور کرلی گئی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آئین ایک انتہائی مقدس دستاویز ہے جو 1973 میں پاکستان کی پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔

قرارداد کے مطابق ریاستی ادارے جتنے مضبوط، فعال اور قابل اعتماد ہوں گے ریاست بھی اتنی طاقتور اور باوقار ہوگی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وطن عزیز میں آج بھی عملی طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کیسے سفر کرنا ہے۔

قرارداد کے مطابق پاکستانی تاریخ کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے محض کرداروں کی تبدیلی کےساتھ پچھلی غلطیاں دوبارہ دہرائی جاتی ہیں۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کی کمزوریوں پرضرور تنقید کی جائے لیکن اس کے اچھے کاموں کو سراہا بھی جانا چاہیے اور اس کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت نہ کی جائے۔

متن میں درج ہے کہ انتظامیہ کے بارے میں معاشرے میں بھی منفی تاثر کو زیادہ پھیلایا گیا جس سے عوام کے دلوں میں اس کی ساکھ سوالیہ نشان رہی ہے۔

قرارداد کے مطابق جوڈیشل ایکٹوزم کی آڑ میں بار بار انتظامیہ کی آئینی حدود میں عدلیہ کی جانب سے مداخلت کی ایک تاریخ موجود ہے۔

قرارداد کے مطابق 1973 کے آئین کے آرٹیکل 184 کا بے دریغ استعمال ہوا اور ان گنت سوموٹو نوٹسز لیےگئے۔

قرارداد کے متن میں درج ہے کہ این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کوخط نہ لکھنے کے جرم میں ایک وزیراعظم کو توہین عدالت کی سزا سنادی گئی اور وہ 5 سال کے لیے نااہل ہوگئے۔

قرارداد میں کیا گیا ہے کہ ایوان کی یہ رائے بھی ہے کہ تمام اداروں اور ستونوں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کو در پیش بحرانوں سے نکالا جاسکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp