کیا سرجری کی ضرورت صرف کرکٹ ٹیم کو ہے؟

بدھ 12 جون 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان انڈیا سے میچ کیا ہارا،  محسن نقوی اپنی ہی منتخب کردہ ٹیم کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے۔  کبھی چھوٹی سرجری اور کبھی بڑی سرجری کی دھمکی دینے لگے۔ چیئرمین پی سی بی کا ٹیم پر تنقید کرنا ایسا ہی ہے جیسے عمران خان  عثمان بزدار کی کارکردگی پر تنقید کر رہے ہوں۔ اپنے ہی بچوں  کو ڈرانے، دھمکانے کا سہرا صرف وزیر داخلہ کے سر ہی جاتا ہے ورنہ عموماً لوگ ایسے موقعے پر گفتگو سے اجتناب کرتے ہیں یا شرمسار ہو کر استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ چیئرمین ہذا نے دونوں کام نہیں کیے۔ اپنے اعمال کی سزا ٹیم کو سنانے کا عندیہ بھی دے دیا اور استعفیٰ کا ان کی گفتگو میں شائبہ تک نظر نہیں آیا۔

محسن نقوی درست فرماتے ہیں کہ اب ہمیں چھوٹی نہیں بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ ایسی سرجری جس میں غیر منتخب افراد منتخب افراد پر حکومت نہ کریں، ایسی سرجری جس میں وزیر داخلہ کا عہدہ غیر منتخب فرد کی گود میں نہ پڑا ہو۔ ایسی سرجری جس میں ایک فون کال پر وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ نہ ملے۔ ایسی سرجری جس میں غیر منتخب لوگ ہر جمہوری عہدے کو ہیچ نہ سمجھیں،  ایسی سرجری جس میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ سے دبتا نہ دکھائی دے، ایسی سرجری جس میں وزیر داخلہ کے قلم دان کے بعد  اسے چیئرمین پی سی بی کے عہدے کی ہوس باقی نہ رہے۔ یہ سرجری وقت کی ضرورت ہے اور اگر نہ کی گئی تو کھیل جاری نہیں رہے گا۔ سیٹی بج جائے گی اور تماشائی میدان میں آ جائیں گے۔

ٹیم کے اعلان میں تعطل اس وجہ سے ہوا کہ آپ نے اپنی من پسند ٹیم بنانی تھی۔ اپنے من پسند کھلاڑیوں کو ٹیم میں لانا تھا۔ ان کو میچ میں نمائندگی دینی تھی۔ ان کو اہم موقع پر میدان میں اتارنا تھا۔ یہی مسئلہ ہمیں چھہتر سال سے ڈس رہا ہے۔ سیاست ہو یا میدان کرکٹ، ہر کوئی اپنی من پسند ٹیم میدان میں اتارتا ہے۔ جمہوریت کو لوگ جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی تضحیک کرتے ہیں۔  عمران خان ہوں یا موجود دور حکومت،  ہر کسی کے پاس ایک عثمان بزدار ہوتا ہے۔ جس کی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے اس کو ’وسیم اکرم پلس‘کہا جاتا ہے۔ جس کی کارکردگی کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور جب وہ دور ختم ہو جاتا ہے تو ادراک ہوتا ہے کہ اس وسیم اکرم پلس نے اپنے لانے والوں کا نام بھی ڈبو دیا۔

آپ بھی ایک وسیم اکرم پلس ہیں۔ پی سی بی میں آپ کی کارکردگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لوگ ورلڈ کپ میں شکست برداشت کر سکتے ہیں مگر بھارت سے اتنی سہولت سے ہارنا کبھی نہیں برداشت کر سکتے۔ جیتا ہوا میچ ہارنا ہمیں قبول نہیں۔ اہم مواقع پر وکٹیں گنوانا لوگوں کو برداشت نہیں۔ جس وقت تیز رنز کی ضرورت تھی اس وقت گیندوں کو ضائع کرنا لوگوں کو قبول نہیں۔

ایک دن آئے گا آپ کا دور اقتدار ختم ہو جائے گا لیکن یہ شکست لوگوں کو یاد رہے گی۔ یہ گرتی وکٹوں کے مناظر لوگوں کو یاد رہیں گے۔ بال پر بال مس کرنے کی روش لوگوں کو نہیں بھولے گی۔ امریکا کے میدان میں بھارت کی فتح لوگوں کے دلوں کو کچوکے لگاتی رہے گی۔ اس میچ کی جھلکیاں مدتوں ہمارے سینے پر مونگ دلیں گی۔ اس وقت شاید آپ امریکا ہی میں مقیم ہوں مگر ہم پاکستانی اس میچ کے حوالے سے آپ کو ضرور کوس رہے ہوں گے۔ آپ چاہے کچھ بھی کریں اس یاد سے آپ پیچھا نہیں چھڑا سکیں گے۔

شکست کو قبول کرنے کا بھی طریقہ ہوتا ہے۔ میچ ہار گئے تھے تو اپنی بری کارکردگی تسلیم کرتے۔ مانتے کہ ٹیم سلیکشن میں غلطی ہوئی۔ مانتے کہ مجھے کرکٹ کا کوئی تجربہ نہیں، بس چیئرمینی کا ’تکہ‘ لگا ہوا ہے۔ مانتے کہ من پسند کھلاڑیوں نے ٹیم کو کلین بولڈ کروا دیا۔  قبول کرتے اس شکست کی ذمہ داری کو اور باعزت طریقےسے استعفیٰ دیتے۔ دنیا کے تمام ممالک میں یہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ کبھی کسی نے نہیں سنا کہ ٹیم ابھی دورے پر ہی ہے اور چیئرمین ٹیم پر برس پڑا ہے، ان کو دھمکیاں دے رہا ہے، جیسے کہہ رہا ہو کہ تم واپس آکر دکھاؤ، تمہیں چھٹی کا دودھ نہ یاد کروا دیا تو کہنا۔

 وہ لڑکے جو ابھی بیرون ملک ہیں، وہ کھلاڑی جنہوں نے اب بھی سبز یونیفارم پہن رکھی رہے، وہ اب کہاں جائیں؟ کس سے شکوہ کریں؟ میچ میں ٹیم آپ نے منتخب کر کے دی، ہار گئی تو قصور لڑکوں کا؟ جیت گئے تو فتح کے نعرے آپ کے لیے؟ اگر کوئی انکوائری کمیٹی بٹھانی تھی توکم از کم ٹیم کی واپسی کا تو انتظار کیا جا سکتا تھا۔ چوک میں گندے کپڑے دھونے سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی کے سوا کیا ملا؟ آپ کا یہ جملہ کہ ’مجھے پتہ ہے، ٹیم میں کیا چل رہا ہے‘ بھارتی چینلوں پر کھڑکی توڑ ریٹنگ کا سبب اور پاکستان کی دنیا بھر میں ہزیمت کا سبب بن گیا۔ میچ ہارنے کی بے عزتی اپنی جگہ لیکن یہ تضحیک اضافی اور اختیاری تھی۔

مانیں یا نہ مانیں کرکٹ کا کھیل پاکستان کے لوگوں کی رگوں میں گردش کرتا ہے۔ یہی ہماری واحد خوشی اور واحد جنون رہ گیا ہے۔ یہ قوم ہر جگہ سے مایوس ہو چکی ہے۔ نہ حکومتیں اس کے لیے کچھ کرتی ہیں نہ بین الاقوامی سطح پر ہماری پذیرائی ہوتی ہے۔ ایک کرکٹ ہی ہے جس میں ہم فخر سے اپنے کھلاڑیوں کا نام لیتے ہیں۔

محسن نقوی صاحب! ٹھیک ہے لوگ آپ کو پنجاب میں محسن نقوی سپیڈ کہتے ہوں گے، وفاق میں بہترین وزیر داخلہ کا درجہ دیتے ہوں گے مگر کرکٹ آپ کے بس کی بات نہیں۔ آپ اس عہدے سے مستعفی ہو جائیں اس لیے کہ آپ کے نام کے ساتھ اور بہت سے لوگوں کی عزت بھی جڑی ہوئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp