سید قاسم محمود نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ: ’ایک مرتبہ ’مجلسِ زبانِ دفتری‘ والوں نے ملازمت کے لیے اشتہار جاری کیا، جس کی اہلیت ایم اے تھی۔ وہ ان دنوں میٹرک پاس تھے مگر ہمت کرکے تحریری امتحان میں بیٹھ گئے۔ اس امتحان میں وہ اول آئے۔ ان کا انٹرویو مجلس کے صدر نشین جسٹس ایس اے رحمن نے لیا، مگر انہوں نے خود فیصلہ کرنے کی بجائے معاملہ اپنی سفارش کے ساتھ مجلس کے سرپرست اور اس وقت کے گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر کے سامنے پیش کردیا۔
سردار نشتر نے سید قاسم محمود کی قابلیت دیکھتے ہوئے انہیں نہ صرف ملازمت کا پروانہ جاری کر دیا بلکہ ان کی بنیادی تنخواہ میں تین سالانہ اضافے بھی شامل کردیے، ساتھ ہی ایک نصیحت کی اور کہا کہ:
’تم ابھی نوجوان ہو، پاکستان کی تقدیر اور اس کا مستقبل اب نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ مگر یاد رکھو ہمارے اردو ادب میں شاعری اور جذبات نگاری تو بہت ہے لیکن ٹھوس علمی مواد کا فقدان ہے، کوئی ڈھنگ کی لغت نہیں، کوئی انسائیکلوپیڈیا نہیں، ہو سکے تو اس طرف توجہ دینا‘۔
سید قاسم محمود کا کہنا تھا کہ ’یہ پہلا موقع تھا جب انسائیکلوپیڈیا کا مشکل اور ثقیل لفظ پہلی بار میرے کانوں میں پڑا اور وہ ایک تقرر نامہ نہیں تھا، ایک فتیلہ تھا جو بارود کے دہانے پر رکھ دیا گیا تھا‘۔
1951ء میں وہ ’مجلسِ زبانِ دفتری‘ حکومت پنجاب سے بطور مترجم منسلک ہوئے بعد ازاں وہ لیل و نہار، صحیفہ، کتاب، سیارہ ڈائجسٹ، ادبِ لطیف اور قافلہ کے مدیر رہے۔ اس دوران علمی اور ادبی کتابوں کے تراجم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ صبح و شام کی جُز وقتی نوکریوں کے ساتھ ساتھ تعلیم کی تکمیل کے لیے بھی کوشاں رہے اور بی اے کی ڈگری حاصل کرلی۔
سید قاسم محمود17 نومبر 1928ء کو ضلع روہتک کے مقام ’کھرکھودہ‘ میں پیدا ہوئے تھے، جو دہلی سے 28 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ان کے والد سید ہاشم علی زمیندار تھے۔ جنہوں نے پنے بیٹے کا نام اپنے نام کے تسلسل میں قاسم علی رکھا اور اسے حسبِ روایت قرآن کی تعلیم کے لیے مدرسے میں داخل کردیا۔
ناظرہ تعلیم کے بعد قاسم علی کو حفظ کے لیے بٹھا دیا گیا۔ 8 پاروں کے حفظ کرنے کے بعد بھی ان کے تلفظ کی ادائی قاریوں کی سی نہ ہو پا رہی تھی، جس پر ایک دن استاد نے انہیں اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہوگئے۔ گھر پر والد کو علم ہوا تو مزید مار پڑی جب کہ والدہ نے ہمیشہ کی طرح نہ صرف ہمت بندھائی بلکہ مدرسے سے اٹھا کراسکول میں داخل کرادیا۔
وہ جس اسکول میں داخل ہوئے اس میں دوچار طلبہ مسلمان جب کہ نوے فیصد سے زیادہ کٹر ہندو تھے۔ جب وہ پانچویں جماعت میں اول آئے تو وہ پنجاب کی تاریخ کے پہلے مسلمان بچے تھے جسے وظیفہ ملا۔ یہ وظیفہ انہیں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات نے خود ’کھرکھودہ‘ اسکول آکر عطا کیا۔
وہ ساتویں جماعت میں تھے کہ ان کے ایک ہندو استاد نے اسلامی تاریخ پڑھاتے ہوئے حضور اکرمؐ کی شان میں گستاخی کی، قاسم علی یہ گستاخی برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے استاد کے منہ پر تختی دے ماری جس پر تمام کلاس قاسم پر ٹوٹ پڑی اور انہیں اتنا مارا کہ اسپتال لے جانا پڑا۔
مارچ 1947ء میں انہوں نے میٹریکولیشن کے امتحان میں بھی پورے پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ قاسم علی ہجرت کے وقت اپنے گھر والوں سے بچھڑ گئے۔ وہ مہاجر کیمپوں میں اس امید پر بطور رضاکار کام کرتے رہے کہ شاید ان کی ملاقات اپنے والدین سے ہوجائے مگر یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ بقر عید کے دن آسٹریلیشیا مسجد کی سیڑھیوں پر نمازیوں کے جوتے سنبھال کر بس اتنی آمدنی کے خواہاں تھے کہ کپڑوں کا نیا جوڑا بن جائے۔
نماز ختم ہوئی تو قاسم علی نے دیکھا کہ سامنے ان کے والد اور چھوٹا بھائی چلے آرہے ہیں۔ بچھڑا بیٹا اپنے والدین سے مل گیا۔ گھر کا سہارا ملا تو انہوں نے چھوٹے موٹے کام کرنا شروع کیے جس میں مختلف اخبارات اور رسالوں کے دفاتر میں چپڑاسی کی نوکری بھی شامل تھی۔ اسی دوران ’مجلسِ زبانِ دفتری‘ کی ملازمت کا وہ واقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی بدل دی۔ اب وہ قاسم علی سے قاسم محمود ہوچکے تھے۔
’مجلسِ زبانِ دفتری‘ کی ملازمت کے دوران انہوں نے موپساں کے افسانوں کا ترجمہ کیا۔ کتاب کا ناشر انہیں لے کر منٹو کے پاس لے گیا تاکہ وہ اس مجموعے پر دیباچہ لکھ سکیں۔ منٹو نے مسودے پر ایک سرسری نظر ڈالی اور اسے اٹھا کر پھینک دیا۔ کہنے لگے تم کبھی مترجم یا افسانہ نگار نہیں بن سکتے۔
منٹو کا یہ جملہ قاسم محمود کو گھائل کر گیا، اگلی صبح انہوں نے مجلس زبان دفتری میں استعفیٰ پیش کیا اور اس کے سیکریٹری حکیم احمد شجاع سے کہا کہ اب میں کبھی سرکاری نوکری نہیں کروں گا اور ایک بڑا ادیب بن کر دکھاؤں گا۔
اب قاسم محمود کی افسانہ نگاری اور ترجمہ نگاری کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ وہ حلقۂ اربابِ ذوق کے جوائنٹ سیکریٹری بھی بن گئے، جہاں انہیں سیکھنے کے بہت مواقع ملے۔
اس زمانے میں قاسم محمود کے جو افسانوی مجموعے شائع ہوئے ان میں ’قاسم کی مہندی‘ اور ’دیوارِ پتھر‘ کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے ’چلے دن بہار‘ کے عنوان سے ایک ناول اور ’پنڈت جلال الدین نہرو‘ کے عنوان سے ایک ناولٹ بھی تحریر کیا۔ اسی دوران انہوں نے بہت سے عالمی شاہ پارے اردو میں منتقل کیے جن میں شیکسپیئر، ٹالسٹائی، موپساں، دوستوفسکی، ایملی برونٹے، چارلس ڈکنز، جان گالزوردی، جان ماسٹرز، ڈارون، فرائیڈ، ٹی ایس ایلیٹ، سی ایم جوڈ اور ڈینس واکر جیسے مصنّفین کے نام سرفہرست ہیں۔
1960ء کی دہائی میں انہیں مینار پاکستان پر یادگاری تختیوں کی تدوین کا موقع ملا۔ وہ سیارہ ڈائجسٹ کے مدیر رہے اور نیشنل بک کونسل کے جریدے کتاب کی ادارت بھی کرتے رہے۔
1970 ء میں انہوں نے اردو کے سب سے بڑے انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت کا ڈول ڈالا۔ اس انسائیکلوپیڈیا کا قسط وار اجرا یکم جون 1970ء کو عمل میں آیا جس کے مدیر مظفر حسین اور روح و رواں سید قاسم محمود تھے۔ یہ اردو میں اپنی طرز کا ایک منفرد تجربہ تھا۔ اس انسائیکلو پیڈیا کے تعارف میں بتایا گیا تھا کہ
’یہ انسائیکلو پیڈیا ماہ بہ ماہ شائع ہوگا اور اس کی تکمیل اندازاً 25 برس میں ہوگی۔ یہ دنیا کا ایک ضخیم ترین اور اردو زبان کا سب سے بڑا انسائیکلوپیڈیا ہوگا اور اس میں 125 سے زیادہ علوم و فنون کے قریباً 75 ہزار مضامین شائع ہوں گے، جو ردیف وار ترتیب میں بالاقساط پیش کیے جائیں گے‘۔
اس انسائیکلو پیڈیا کی کل 28 اقساط شائع ہوئیں جن میں الف ممدودہ سے شروع ہونے والے 838 مضامین شامل تھے، جو کل 952 صفحات میں اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ مگر الف ممدوہ کے مضامین کے اختتام کے بعد یہ انسائیکلوپیڈیا نامساعد حالات کی وجہ سے دم توڑ گیا۔ اگر انسائیکلوپیڈیا معلومات کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو آج اردو زبان کا ضخیم ترین انسائیکلو پیڈیا وجود میں آچکا ہوتا۔
1975ء کا سال سید قاسم محمود ہی نہیں اردو کی اشاعتی تاریخ کا بھی ایک اہم سال تھا۔اس سال یکم جنوری سے انہوں نے اردو میں ایک نئی طرز کی کتابوں کی اشاعت کی طرح ڈالی، جسے شاہکار جریدی کتب کے نام سے موسوم کیا گیا۔
سید قاسم محمود نے کتابوں کی بڑھتی ہوئی گرانی اور کتب بینوں کے کتابوں سے دور ہونے کا حل یہ نکالا کہ اردو کی نئی اور پرانی سبھی طرح کی اور سبھی موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں باریک کتابت میں جریدی سائز پر شائع کیں اور ان کو کم سے کم قیمت میں قارئین کی خدمت میں پہنچادیا۔
اس سلسلے کی ابتدا یکم جنوری 1975ء کو ٹالسٹائی کے مشہور ناول حاجی مراد کے ترجمے کی اشاعت سے ہوئی۔ یہ ترجمہ معروف افسانہ نگار جناب مظفر محمد علی نے کیا تھا جو ان دنوں مظفر کاظمی کہلاتے تھے۔
شاہکار جریدی کتب کا یہ سلسلہ اردو دان حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔ سید قاسم محمود نے ان کتب کے ساتھ ساتھ شاہکار انسائیکلو پیڈیا معلومات، شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا، شاہکار بے بی انسائیکلو پیڈیا، شاہکار تعلیمی فیچر اور شاہکار جیبی کتابیں بھی شائع کرنا شروع کر دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان جریدی کتب کا سلسلہ ایک ماہ میں 17 کتابوں کی اشاعت تک جا پہنچا۔
انسائیکلوپیڈیا معلومات کا سلسلہ اس مرتبہ پہلے کی بہ نسبت قدرے آگے بڑھا مگر پھر الف مقصورہ کی چند اقساط کی اشاعت کے بعد ختم ہوگیا۔ اردو میں بچوں کے پہلے انسائیکلوپیڈیا ’بے بی انسائیکلوپیڈیا‘ کا سلسلہ بھی مکمل نہ ہوسکا البتہ اسلامی انسائیکلوپیڈیا کا سلسلہ 36 قسطوں میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔
شاہکار جریدی کتب کی اس مقبولیت سے متاثر ہوکر پاکستان کے بعض دوسرے اشاعتی ادارے بھی اپنی کتابیں جریدی سائز میں شائع کرنے لگے۔ ان اشاعتی اداروں میں شیخ غلام علی اینڈ سنز اور مکتبہ میری لائبریری کے نام سرفہرست تھے۔ ان اداروں نے اپنی جریدی کتب کے سلسلے کو بالترتیب ’روشن کتابیں‘ ور ’درخشاں جریدی سلسلے‘ کے نام دیے۔
شاہکار جریدی کتب اور دوسرے اداروں کی جریدی کتابوں کا یہ سلسلہ ڈھائی تین سال تک اپنے نقطۂ عروج پر رہا مگر پھر 1977ء میں ملک میں ہڑتالوں اور احتجاجوں کے طویل سلسلوں کی وجہ سے جریدی کتابوں کے یہ سلسلے اپنے اشاعتی تسلسل برقرار نہ رکھ سکے اور ایک ایک کرکے بند ہوتے چلے گئے۔
سید قاسم محمود کو جنرل ضیا الحق کا دور راس نہیں آیا۔ اس دوران انہوں نے ’شاہکار بک ڈائجسٹ‘ کے نام سے اشاعتی سلسلہ جاری رکھا مگر پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی، مارشل لا کی مخالفت اور سنسر کی پابندیوں کی وجہ سے انہیں لاہور چھوڑنے پرمجبور ہونا پڑا۔ 1980ء میں وہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں وہ 1998ء تک مقیم رہے۔
ابتدا میں وہ جون ایلیا اور زاہدہ حنا کے ادارے سے شائع ہونے والے رسالے ’عالمی ڈائجسٹ‘ سے منسلک ہوئے، تاہم بہت جلد انہوں نے اپنا اشاعتی ادارہ دوبارہ قائم کرلیا، جس کے تحت انہوں نے ’ماہنامہ افسانہ ڈائجسٹ‘، ’طالب علم‘ اور ’سائنس میگزین‘ کے نام سے مختلف جرائد جاری کیے اور اسلامی انسائیکلو پیڈیا، انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا ایجادات اور انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا شائع کیے۔
آخر الذکر انسائیکلوپیڈیا کی ماہ بہ ماہ اشاعت کا آغاز جنوری 1989ء میں ہوا تھا مگر 16 قسطوں میں حرف ممدودہ کی تکمیل کے بعد اس کی اشاعت تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔ اشاعت میں اس تعطل کے باوجود سید قاسم محمود نے ہمت نہیں ہاری اور وہ اس انسائیکلو پیڈیا پر مستقل کام کرتے رہے۔
1997ء میں جب پاکستان کے قیام کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو اس کی مناسبت سے قاسم محمود صاحب نے اپنا یہ انسائیکلو پیڈیا مارچ 1998ء میں مکمل کرکے قارئین کے سامنے پیش کردیا۔ انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا 985 صفحات پر مشتمل تھا اور اس کا یہی اختصاص بہت بڑا تھا کہ یہ پاکستان کے موضوع پر چھپنے والا پہلا ردیف وار باتصویر انسائیکلو پیڈیا تھا۔
اسی برس سید قاسم محمود واپس لاہور منتقل ہوگئے۔ درمیان میں کچھ عرصہ وہ اسلام آباد میں بھی مقیم رہے جہاں انہوں نے اکادمی ادبیات پاکستان کے شعبہ مطبوعات میں مشیر کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے اکادمی ادبیات سے بچوں کا انسائیکلوپیڈیا شائع کرنے کی ایک اور کوشش کی مگر اس مرتبہ بھی ان کا یہ سلسلہ مکمل نہ ہوسکا۔ وہ لاہور واپس آگئے جہاں انہوں نے اپنے ادھورے خواب دوبارہ مکمل کرنے کی کوشش کی۔ مگر پیرانہ سالہ اور بیماری کے باعث وہ اپنے یہ خواب مکمل نہ کرسکے۔
ان ادھورے خوابوں میں ان کی خودنوشت ’دھوپ چھاؤں‘ بھی شامل تھی جس کی چند اقساط افسانہ ڈائجسٹ میں چھپ سکیں۔ 31مارچ 2010ء کوسید صاحب کا انتقال ہوگیا اور وہ جوہر ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ سید قاسم محمود کو سرکار نے کبھی کسی اعزاز کا مستحق نہیں سمجھا۔ سید صاحب ایسے اعزازات کے متمنی بھی نہیں تھے۔ سنا ہے چند سال پہلے سرکار نے ان کے اہل خانہ سے کسی اعزاز کے لیے ان کے کوائف منگوائے تھے مگر شاید جو لوگ ان اعزازات کا فیصلہ کرتے ہیں وہ سید صاحب کی خدمات سے واقف ہی نہیں تھے۔