امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ وزیرخزانہ اپنی تقریر میں کہہ دیں گے کہ مہنگائی کم ہوگئی، افراط زر کم ہوگیا، ان کی تقریر کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں
امیر جماعت حافظ نعیم الرحمان نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے تاجر اور جاگیر دار ٹیکس نیٹ میں نہیں لائے جاتے، چند ملین لوگوں کے اوپر ٹیکس لاگو کردیا جاتا ہے، لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں نہ لانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ تاجروں سے مشاورت کے بعد ان کو ٹیکس نیٹ میں لے کر آئیں۔ ’آپ اچانک ٹیکس لگا دیتے ہیں، اس کے بعد احتجاج ہوتا ہے، دھرنے ہوتے ہیں اور پھر ٹیکس واپس لے لیا جاتا ہے۔‘
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ٹیکس سب پر لاگو ہونا چاہیے، ورنہ یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا اور ہماری معیشت تباہ ہوتی رہے گی، آخر میں وزیرخزانہ تقریر میں کہہ دیں گے کہ ہم نے مہنگائی کم دی، افراط زر کم ہوگیا، وزیرخزانہ کی تقریر کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں 65 ارب ڈالرز ہیں جو ہم نے ایکسپورٹ سے حاصل کیے ہیں، جبکہ ہم نے ایکسپورٹ کو 125 بلین ڈالر تک لے کر جانا ہے، ہم نے اتنا بڑا خلا کہاں سے پورا کرنا ہے، آئی ٹی سیکٹر میں ہی ہمارے پاس اتنی گنجائش ہے کہ ہم صرف 2 سال میں 20 ارب کی ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ہماری آئی ٹی سیکٹر کی ایکسپورٹ تقریباً 10 بلین ڈالر ہیں، لیکن حکومت کی نالائقی کی وجہ سے ہمیں صرف 3 بلین ڈالر مل رہے ہیں، اس کے ٹیکس ہمیں مل جائیں تو لوگ دبئی میں اپنا سیٹ اپ نہیں بنائیں گے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ سال کے 150 بلین ڈالر کے لیے ہم کبھی آئی ایم کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور کبھی چین، کبھی عرب ممالک جاتے ہیں، بہت سے ممالک آئی ایم ایف سے بارگین کرتے ہیں کہ ڈیفالٹ کرنا ہے کردو، ہم آپ کی تجاویز نہیں مانیں گے، پھر آئی ایم ایف ان کے قرضے ری شیڈول کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے قرضے ری شیڈول نہیں ہوتے کیوں کہ ہمارے ہاں کوئی جرات ہی نہیں رکھتا کہ وہ آئی ایم ایف سے اس طرح بات کرسکے، حکومت آئی ایم ایف سے قرضے ری شیڈول کروائے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے نے 326 ارب روپے ٹیکس دیا ہے، ایف بی آر پر کیوں خرچہ ہورہا ہے جب وہ ٹیکس جمع ہی نہیں کرسکتی، بڑے جاگیردار ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں آرہے۔ ’غریب کو ٹیکس نیٹ میں لاؤ، مڈل مین کو تباہ کردو لیکن جاگیرداروں اور وڈیروں کو کچھ نہ کہو، یہ آئی ایم ایف کا پلان ہے۔‘