پاکستانی کرکٹرز کی دوسرے ملکوں کی ٹیموں میں بہتر کارکردگی کیوں؟

جمعرات 13 جون 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستانی شائقین اپنی اپنی بساط، لگن اور فہم کے مطابق ‘تم ہارو یا جیتو ہمیں تم سے پیار ہے’ سے لے کر ‘ہمیں کرکٹ سے نفرت ہے’ جیسے خیالات میں منقسم ہیں۔ کینیڈا کے ساتھ کھیلے جانے والے میچ کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد لوگوں میں غم و غصے کے باوجود شائقین کی اچھی خاصی تعداد نے میچ دیکھا۔ جو ایک حوالے سے خوش آئند بات بھی ہے کہ کھیل کو کھیل ہی سمجھنا چاہیے لیکن کھیل میں کی جانے والی غلطیوں پر بات بھی ہونی چاہیے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم سے پہلے بھی کوئی زیادہ امیدیں وابستہ نہیں تھیں جو ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ‘شاندار’ کارکردگی کے بعد دم توڑ گئیں اور ورلڈ کپ کے پہلے 3 میچ اس مایوسی کا منطقی نتیجہ ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے خرابیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہاں بھی ہم نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح طویل ‘محنت’ اور’تگ و دو‘ کے بعد تنزلی کے پاتال تک رسائی حاصل کی ہے۔ اس مسئلے کی جڑیں بھی ہماری لاپرواہی، نالائقی اور غیر سنجیدہ رویوں میں موجودہیں۔

پوری دنیا اب معاملات کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر دیکھتی ہے، اور ہم جذباتی، روحانی اور پتہ نہیں کن کن بنیادوں پر دیکھتے اور خرابی سے بھی خوبی کی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ ہم انتظامی معاملات میں فوج ظفر موج بھرتی کر کے بھی چیزیں ٹھیک نہیں کر پاتے۔ کرکٹ ٹیم کے ساتھ جانے والا جتھہ وہاں کیا کر رہا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

ٹیلنٹ کی بات تو ایک طرف، ہم پیشہ ورانہ طور پر اتنےکمزور ہو چکے ہیں کہ پوری دنیا کوجو سامنے نظر آ رہا ہوتا ہے، ہم نے اس پر ابھی سوچا تک نہیں ہوتا۔ اس کی مثال کل کے میچ میں کمنٹری کے دوران وسیم اکرم کے کہے گئے جملے ہیں۔ جب پاکستان ابتدائی اوورز میں انتہائی سست رفتاری سے بیٹنگ کر رہا تھا تو کمنٹری باکس میں بیٹھے وسیم اکرم پر کیا گزر رہی تھی، اس کا اندازہ ان جملوں سے لگائیے، ’’پاکستان کواپنا رن ریٹ امریکہ سے بہتر بنانے کے لیے مطلوبہ ہدف 14 اوورز میں مکمل کرنا ہو گا۔ مجھے امید ہے پاکستانی ٹیم کو یہ معلوم ہو گا‘‘۔۔۔ اور ساتھ ہی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ’’لیکن میرا نہیں خیال کہ انھیں معلوم ہو گا۔۔۔‘‘

یعنی کرکٹ ٹیم کے کرتا دھرتا اتنے لاپرواہ اور نالائق ہیں کہ انھوں نے اس پر ورکنگ ہی نہیں کی ہو گی۔ یا کی بھی تھی تو ٹیم نے اسے اہم نہیں سمجھا۔ ایک زمانہ تھا کہ باب وولمر جیسے کوچ لیپ ٹاپ سامنے رکھ کراعداد و شمارکا جائزہ لے رہے ہوتے تھے اور مکمل طورپر کھیل میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ شاید اسی وجہ سے شکست کے صدمے سے جانبر نہ ہو سکےتھے۔

موجودہ صورت حال میں پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی پر بھی بات ہورہی ہے، جو کسی حد تک درست بھی ہے۔ پی ایس ایل میں ہیرو دکھائی دینے والے کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر زیرو ثابت ہورہے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ یہ ٹیلنٹ امریکہ کے پاس کہاں سے آیا؟ ان کے پاس توزیادہ تر کھلاڑی باہر کے ہیں اور وہ بھی کوئی غیر معمولی کھلاڑی نہیں ہیں جو اپنے ممالک میں شاندار کیرئر چھوڑ کر وہاں گئے ہوں، بلکہ بہت عام سے کھلاڑی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو روزگار کی تلاش میں بیرون ملک گئے اور کرکٹ کا جنون تھا سو وہاں بھی کرکٹ کے میدانوں میں اترے اور انھیں ان کے ٹیلنٹ کا صلہ مل گیا۔ توفرق کیا ہے؟

پہلا فرق یہ ہے کہ وہاں ٹیلنٹ کی قدر ہے، دوسرا سفارش کا رواج نہیں اور تیسرا وہ ممالک دستیاب ٹیلنٹ پر محنت کرتے ہیں۔ جبکہ یہاں ان سب حوالوں سے کرکٹ تباہ ہو چکی ہے۔

ان کھلاڑیوں کا یہاں سے چلے جانا ہمارے نظام پرایک سوالیہ نشان ہے۔ جس طرح دیگر شعبوں کے بڑے دماغ دوسرے ممالک میں منتقل ہو رہے ہیں، ایسے ہی کرکٹر بھی ہو رہے ہیں۔ سفارش اور میرٹ کی خرابی انھیں اپنے نظام سے مایوس کرچکی ہے۔ جنوبی افریقہ سے کھیلنے والے سپنرعمران طاہر اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ انھوں نے جنوبی افریقی شہریت حاصل کی اور اس وقت وہاں کی کرکٹ ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔ہمارے پاس اس وقت ان کے پائے کا ایک بھی سپنر موجود نہیں۔

اسی طرح کینیڈا کی ٹیم میں کھیلنے والے کلیم ثنا رحمان ہیں جو پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ کئی اور کھلاڑی کینیڈا، عمان، امریکہ سمیت دیگر ممالک کی قومی ٹیموں کا حصہ بن چکے ہیں۔ کئی پاکستانی کھلاڑی دوسرے ممالک کی لیگز میں کھیل رہے ہیں اور ایسے کھلاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اس قسم کے ارادوں کے ساتھ دیار غیر میں منتقل ہوچکے یا ہو رہے ہیں۔

دنیا بھر میں لیگز اور ڈومیسٹک کرکٹ میں کافی زیادہ مواقع پیدا ہونے کے بعد ٹیلنٹ کی منتقلی میں تیزی آگئی ہے، کئی نوجوانوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو بطور خاص کرکٹ کے میدان میں قسمت آزمائی کے لیے بیرون ملک جا رہے ہیں۔

ایک اور مثال، حال ہی میں امریکہ کی جانب سے کھیلنے والی فاسٹ بائولر علی خان کی ہے۔ ان کا تعلق فتح جنگ کے قریب واقع ایک گائوں جعفر سے ہے۔ وہ کوئی اہم کرکٹر نہیں تھے بلکہ بقول ان کے دیار غیر منتقل ہونے کے بعد بھی انھیں معلوم نہیں تھا کہ امریکہ میں کرکٹ ہوتی ہے۔ یہ سب اتفاقاً ہوا۔

یاد رہے کہ امریکہ میں کرکٹ کھیلوں کی فہرست میں کہیں بہت نچلے درجے پر آتاہے۔ لیکن فرق دیکھیے کہ اس ٹیم نے پاکستانی ٹیم کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکا میں کرکٹ کے فروغ کے لیے کچھ تنظیموں نے نجی طور پر گراؤنڈز اور سہولیات فراہم کیں تا کہ کھلاڑی تربیت حاصل کر سکیں۔

امریکہ میں چند ہزار افراد ہی باقاعدہ کرکٹ کھیلتے ہوں گے۔ لیکن عمدہ حکمت عملی اورمنصوبہ بندی سے کی جانے والی تربیت کےنتیجے میں عام سے ٹیلنٹ میں سے منتخب ہونے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی دیکھیے اور پاکستان میں لاکھوں کھلاڑیوں میں سے منتخب ہونے والے فضول، ان فٹ، سفارشی اور نالائق کھلاڑی دیکھیے جو دوستیاں نبھانے والے ایک کپتان کے ساتھ رسوا ہو رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp