’تنخواہ نقد لیں یا پھر پاکستان چھوڑ دیں‘

جمعرات 13 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کی جانب سے اپنا پہلا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے، جس میں آئندہ مالی سال کے لیے حکومتی آمدن اور اخراجات کا تخمینہ دیا گیا ہے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں  پیٹرول، گاڑیوں، موبائل فونز سیمت دیگر شعبوں میں اضافی ٹیکسز لگائے ہیں جبکہ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں بڑا اضافہ کردیا ہے۔

ٹیکسز کی بھرمار اور خاص کر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بعد عوام کی جانب سے حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وفاقی حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو قربانی کا بکرا بنا دیا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ جو شعبہ ٹیکس دیتا ہے اسے ہی سب سے زیادہ ٹیکس کا سامنا ہے۔

صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ ٹیکنو کریٹ وزیر خزانہ اورنگ زیب نے بڑی چالاکی سے تاجر طبقے کو ٹیکس سے بچانے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جو پہلے ہی سب سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔

ماہر معاشیات عمار خان نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ جس نے بھی یہ سلیب بنائیں ہیں انھوں نے یہ حساب لگایا ہے کہ ان کے نتیجے میں ٹیکس میں اضافہ کتنا زیادہ ہو گا۔

صحافی نجم ولی خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے ساتھ ہی تنخواہوں پر ٹیکس میں بھی بڑا اضافہ کر دیا ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر بھی تنخواہیں بڑھائی جائیں مگر  نجی اداروں کے ملازمین کا بھی اضافی ٹیکس کٹ جائے گا۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب ہے کہ پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کی جولائی سے تنخواہیں کم ہو جائیں گی۔

چیئرمین مجلس وحدت مسلمین سنیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار کر کے عام آدمی کے معاشی بوجھ میں ناقابل برداشت اضافہ کر دیا گیا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کو بچانے کے لیے ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس میں مزید اضافہ حکومت کا ظالمانہ اقدام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متوسط طبقے کو ریلیف دینے کی بجائے اس پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کو پہلے ہی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے، موجودہ بجٹ نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ حکومت نے سال 2024میں ٹیکس چھوٹ کی مد میں 3 ہزار 900 ارب روپے کا دوسروں کو فائدہ پہنچا کر ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ مخصوص تاجر طبقوں  کو ٹیکسوں میں دی جانے والی چھوٹ اور بےجا مراعات کے اضافی اخراجات پورے کرنے کے لیے بجٹ میں عام آدمی پر ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں۔ جس اذیت سے قوم آج گزر رہی ہے گزشتہ70 سالوں میں ایسا کرب ناک وقت قوم نے نہیں دیکھا۔

سینئر صحافی شہباز رانا کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقہ ایک بار پھر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ایک بار پھر بھاری ٹیکس لگانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں، ایک یہ کہ تنخواہ نقد لیں یا پھر پاکستان ہی چھوڑ دیں۔

جمال احمد لکھتے ہیں کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بنیادی ضروریات، کھانے پینے کی اشیا سے لے کر گھر بنانے کے سامان تک سب مہنگا کر دیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ عوام دوست بجٹ ہے تو عوام دشمن بجٹ کیسا ہوتا ہے؟

صحافی امیر عباس کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ کوئی عوام دوست یا عوام کی منتخب کردہ حکومت دے ہی نہیں سکتی۔ یہ بجٹ اس ملک کو برباد کرنے جا رہا ہے۔ تنخواہ دار پر مزید ٹیکس، تعمیرات اور رئیل سٹیٹ پر مزید ٹیکس، پٹرول ڈیزل پر مزید ٹیکس، سروسز سیکٹر پر مزید ٹیکس اور تو اور ایکسپورٹر پر بھی دبا کر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ یہ لوگوں کے کپڑے اُتروائیں گے، بھوک سے ماریں گے اور خانہ جنگی کروائیں گے۔

واضح رہے فنانس بل کے مطابق 50 ہزار روپے ماہانہ آمدن والے افراد کے لیے انکم ٹیکس سے استثنیٰ برقرار رکھا گیا ہے۔ تاہم سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے کمانے والوں کا انکم ٹیکس 5 فیصد کر دیا گیا ہے یعنی ایک لاکھ روپے تک ماہانہ آمدنی پر انکم ٹیکس 5 فیصد ہو گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp