عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کی جانب سے اپنا پہلا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے، جس میں آئندہ مالی سال کے لیے حکومتی آمدن اور اخراجات کا تخمینہ دیا گیا ہے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیٹرول، گاڑیوں، موبائل فونز سیمت دیگر شعبوں میں اضافی ٹیکسز لگائے ہیں جبکہ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں بڑا اضافہ کردیا ہے۔
ٹیکسز کی بھرمار اور خاص کر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بعد عوام کی جانب سے حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وفاقی حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو قربانی کا بکرا بنا دیا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ جو شعبہ ٹیکس دیتا ہے اسے ہی سب سے زیادہ ٹیکس کا سامنا ہے۔
صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ ٹیکنو کریٹ وزیر خزانہ اورنگ زیب نے بڑی چالاکی سے تاجر طبقے کو ٹیکس سے بچانے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جو پہلے ہی سب سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔
ٹیکنو کریٹ وزیر خزانہ اورنگ زیب نے بڑی چالاکی سے تاجر طبقے کو ٹیکس سے بچانے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جو پہلے ہی سب سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے https://t.co/bUJ9GQuBRQ
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) June 12, 2024
ماہر معاشیات عمار خان نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ جس نے بھی یہ سلیب بنائیں ہیں انھوں نے یہ حساب لگایا ہے کہ ان کے نتیجے میں ٹیکس میں اضافہ کتنا زیادہ ہو گا۔
Don't think whoever made the slabs actually did the calculation on how the change in tax incidence is ridiculously high
— Ammar Khan (@rogueonomist) June 12, 2024
صحافی نجم ولی خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے ساتھ ہی تنخواہوں پر ٹیکس میں بھی بڑا اضافہ کر دیا ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر بھی تنخواہیں بڑھائی جائیں مگر نجی اداروں کے ملازمین کا بھی اضافی ٹیکس کٹ جائے گا۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب ہے کہ پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کی جولائی سے تنخواہیں کم ہو جائیں گی۔
حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے ساتھ ہی تنخواہوں پر ٹیکس میں بھی بڑا اضافہ کر دیا ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ حکومت کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر بھی تنخواہیں بڑھائے مگر ٹیکس نجی اداروں کے ملازمین کا بھی اضافی کٹ جائے گا۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب ہے کہ پرائیویٹ اداروں کے…
— Najam Wali Khan (@najamwalikhan) June 12, 2024
چیئرمین مجلس وحدت مسلمین سنیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار کر کے عام آدمی کے معاشی بوجھ میں ناقابل برداشت اضافہ کر دیا گیا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کو بچانے کے لیے ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس میں مزید اضافہ حکومت کا ظالمانہ اقدام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متوسط طبقے کو ریلیف دینے کی بجائے اس پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کو پہلے ہی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے، موجودہ بجٹ نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ حکومت نے سال 2024میں ٹیکس چھوٹ کی مد میں 3 ہزار 900 ارب روپے کا دوسروں کو فائدہ پہنچا کر ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ مخصوص تاجر طبقوں کو ٹیکسوں میں دی جانے والی چھوٹ اور بےجا مراعات کے اضافی اخراجات پورے کرنے کے لیے بجٹ میں عام آدمی پر ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں۔ جس اذیت سے قوم آج گزر رہی ہے گزشتہ70 سالوں میں ایسا کرب ناک وقت قوم نے نہیں دیکھا۔
بجٹ 2024, ٹیکسوں کی بھرمار کر کے عام آدمی کے معاشی بوجھ میں ناقابل برداشت اضافہ کر دیا گیا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کو بچانے کے لیے ملازمین کی تنخواہوں پر ٹیکس میں مزید اضافہ حکومت کا ظالمانہ اقدام ہے۔متوسط طبقے کو ریلیف دینے کی بجائے اس پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ مہنگائی نے عام…
— Senator Allama Raja Nasir (@AllamaRajaNasir) June 13, 2024
سینئر صحافی شہباز رانا کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقہ ایک بار پھر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ایک بار پھر بھاری ٹیکس لگانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں، ایک یہ کہ تنخواہ نقد لیں یا پھر پاکستان ہی چھوڑ دیں۔
Salaried class should protest against the government’s decision to once again impose heavy taxes. We have two choice 1- Take salary in cash or 2- leave Pakistan
The salaried class has been hit the hardest again. Currently, the maximum rate of 35% applies to monthly incomes over…
— Shahbaz Rana (@81ShahbazRana) June 13, 2024
جمال احمد لکھتے ہیں کہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بنیادی ضروریات، کھانے پینے کی اشیا سے لے کر گھر بنانے کے سامان تک سب مہنگا کر دیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ عوام دوست بجٹ ہے تو عوام دشمن بجٹ کیسا ہوتا ہے؟
بجٹ تقریر دیکھی۔ اعداد و شمار پڑھے ۔۔
ہر چیز مہنگی ہو گی ۔ کھانا پکانے کی اشیا مہنگی،
شیمپو صابن ٹوتھ پیسٹ مہنگا ، گھر بنانے کا سامان مہنگا ۔ یہ عوام دوست بجٹ ہے تو عوام دشمن بجٹ کیسا ہوتا ہے ؟— Jamal Ahmad (@JamalAhmad1213) June 12, 2024
صحافی امیر عباس کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ کوئی عوام دوست یا عوام کی منتخب کردہ حکومت دے ہی نہیں سکتی۔ یہ بجٹ اس ملک کو برباد کرنے جا رہا ہے۔ تنخواہ دار پر مزید ٹیکس، تعمیرات اور رئیل سٹیٹ پر مزید ٹیکس، پٹرول ڈیزل پر مزید ٹیکس، سروسز سیکٹر پر مزید ٹیکس اور تو اور ایکسپورٹر پر بھی دبا کر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ یہ لوگوں کے کپڑے اُتروائیں گے، بھوک سے ماریں گے اور خانہ جنگی کروائیں گے۔
یہ بجٹ کوئی عوام دوست یا عوام کی منتخب کردہ حکومت دے ہی نہیں سکتی۔ یہ بجٹ اس ملک کو رہا سہا برباد کرنے جا رہا ہے۔ تنخواہ دار پر مزید ٹیکس، تعمیرات اور رئیل سٹیٹ پر مزید ٹیکس، پٹرول ڈیزل پر مزید ٹیکس، سروسز سیکٹر پر مزید ٹیکس اور تو اور ایکسپورٹر پر بھی دبا کر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔…
— Ameer Abbas (@ameerabbas84) June 12, 2024
واضح رہے فنانس بل کے مطابق 50 ہزار روپے ماہانہ آمدن والے افراد کے لیے انکم ٹیکس سے استثنیٰ برقرار رکھا گیا ہے۔ تاہم سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے کمانے والوں کا انکم ٹیکس 5 فیصد کر دیا گیا ہے یعنی ایک لاکھ روپے تک ماہانہ آمدنی پر انکم ٹیکس 5 فیصد ہو گیا ہے۔