وفاقی حکومت کی جانب سے 10 جون کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس میں اعلان کیا گیا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے پاکستانی شہریوں کو پاسپورٹ جاری نہیں کیے جائیں گے۔ اس فیصلے کے بارے میں بیرون ملک مقیم چند پاکستانیوں سے جب ہم نے بات کی تو انہوں نے اس فیصلے کو ناپسند قرار دیا۔
مزید پڑھیں
ایسے ہی ایک پاکستانی نژاد کینیڈین شہری سید احمد علی نے وی نیوز کو بتایا کہ حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ بالکل بھی درست نہیں۔ انہوں نے سوالات اٹھائے کہ کیا اس فیصلے سے بیرون ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے افراد کے مقدمات کو وہاں تقویت ملے گی، کیا ایک سیاسی پناہ گزین کو پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی بھی ہے یا نہیں اور اس فیصلے کے پیچھے پاکستانی حکومت کے کیا محرکات ہیں، یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟
سیاسی پناہ گزین ملک کی بدنامی کا باعث ہیں، عبدالباسط
سابق پاکستانی سفیر عبدالباسط نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک لحاظ سے یہ فیصلہ درست ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے دراصل معاشی پناہ گزین ہوتے ہیں اور بہتر معاشی مواقع کے لیے وہ کہانیاں گھڑتے ہیں کہ ان کے ملک میں ان پر بہت ظلم ہوا۔
ایمبیسیڈر عبدالباسط نے کہا کہ سیاسی پناہ گزینوں کو پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ انتظامی ہے نہ کہ سیاسی، پاسپورٹ جاری کرنا حکومت کا اختیار ہوتا ہے، اس فیصلے سے ایک یہ پیغام دینا بھی مقصود ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی ظلم نہیں ہو رہا جیسا کہ ظاہر کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی پناہ گزین مختلف ملکوں میں جا کر درخواستیں دیتے ہیں، اگر ان کی درخواستیں مسترد ہوجائیں تو وہ ممالک پاکستانی حکومت کو لکھتے ہیں اور جب یہ تصدیق ہوجاتی ہے کہ مذکورہ شخص پاکستانی ہے تو پاکستانی حکومت اس کو سفری دستاویزات مہیا کرنے کی پابند ہوتی ہے، ایسی صورت میں اس شخص کو ایک صفحے پر مشتمل سفری دستاویز جاری کردی جاتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ سیاسی پناہ گزینوں کو پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس ملک کی شہریت کے خواہاں ہوتے ہیں۔
حکومت سیاسی پناہ گزینوں کا کیس مضبوط کردے گی، سلمان بشیر
سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے وی نیوز کو بتایا کہ اگر کوئی پاکستانی کسی دوسرے ملک میں پناہ لے رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان سے اپنا تعلق توڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت پاکستان کی جانب سے اسے پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے گا تو اس کا مقدمہ مضبوط ہوجائے گا۔ سلمان بشیر نے کہا کہ انہیں علم نہیں کہ اس فیصلے کے پیچھے حکومت کی کیا حکمت عملی کارفرما ہے لیکن ایسے فیصلے کو مشتہر کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، پاسپورٹ دینا نہ دینا آپ کی مرضی ہے لیکن اس کا اعلان کیوں کر رہے ہیں۔
جن کے ویزے کی مدت ختم ہوچکی، انہیں فرق پڑے گا، سید محمد علی
ماہر امور قومی سلامتی سید محمد علی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ کئی لوگ پاکستان کے اندر داخلی سلامتی کے مسائل کا موجب بنتے ہیں اور اس کے بعد وہ بیرون ملک جا کر عالمی سطح پر ملکی مسائل میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے افراد پاکستان کی حکومت، اداروں اور جمہوریت کے لیے خطرات کا باعث بنتے ہیں، جن لوگوں کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور ہوچکی ہیں انہیں اس فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ جو لوگ ابھی درخواست دینے کے مرحلے پر ہیں یا جن کے ویزے ختم ہوچکے ہیں یا وہ جوگ جو کسی ملک میں غیرقانونی طور پر قیام پذیر ہیں، وہ اس حکومتی فیصلے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔