بکرا عید پر کراچی میں سیاسی، مذہبی و فلاحی جماعتوں کے کارکنان کھالیں جمع کرنے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر کھال لیتے ہیں اور اپنے دفاتر پہنچاتے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ یہ کھالیں بہت مہنگی بکتی تھیں لیکن چائنیز پراڈکٹس آنے کے بعد، اگرچہ ان کی قیمت تو کم ہوئی لیکن یہ دھندا اب بھی زور و شور سے جاری ہے تاہم اب معاملہ پہلے جیسا نہیں رہا جب کھالوں کے لیے شہر میں تصادم ہوتا تھا، ایک دوسرے پر حملے ہوتے تھے اور کھال کی پرچی دیتے وقت ان کا جانور ہی مار دیا جاتا تھا۔
کراچی میں کھالوں کی سیاست کا آغاز کب سے ہوا، اس کی مد میں ملنے والی رقم سے کیا ہوتا رہا اور یہ کام کیوں کیا جاتا تھا؟ اس حوالے سے ہم نے بات کے سینیئر صحافیوں سے۔
سینیئر صحافی فیض اللہ خان بتاتے ہیں کہ کراچی میں کھالوں کے حصول کے لیے ماضی میں تصادم دیکھا گیا ہے۔ ایم کیو ایم جب طاقت میں تھی تو اس کی خواہش رہی کہ وہ زیادہ سے زیادہ کھالیں جمع کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اپارٹمنٹس کی یونینز سے ان کی بات ہو جاتی تھی اور زیادہ تر کھالیں ایم کیو ایم کے پاس ہی جاتی تھیں۔
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کا کھالوں پر تصادم
فیض اللہ خان بتاتے ہیں کہ کراچی میں زیادہ کشیدگی کھالوں کے حوالے سے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے مابین رہی۔ جماعت اسلامی کا الزام یہ تھا کہ ایم کیو ایم زبردستی جماعت اسلامی سے کھالیں چھین رہی ہے۔
گینگ وار کی دلچسپی
فیض اللہ خان کے مطابق گینگ وار کا تعلق بھتہ لینے سے تھا۔ ان کی کھالوں میں کبھی اتنی دلچسپی تو نہیں رہی البتہ یہ ضرور تھا کہ اگر کوئی بھتہ نہیں دیتا تھا تو ان کے قربانی کے جانور کو گولیاں مار دی جاتی تھیں۔
کورنگی کی شفیع ٹرینڈری اور قربانی کی کھالیں
فیض اللہ خان بتاتے ہیں کہ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں شفیع ٹرینڈری کے نام سے ایک فیکٹری ہے جہاں کراچی سے کھالیں جاتی تھیں اور مہنگے داموں فروخت ہوتی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کراچی میں ایسا وقت تھا کہ ایدھی فاؤنڈیشن سے بھی کھالیں چھین لی جاتی تھیں۔
اس وقت کی منظر کشی فیض اللہ خان کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ سوزوکیوں کی مدد سے کھالیں شفیع ٹرینڈری پہنچائی جاتی تھیں۔ صورت حال یہ ہوا کرتی تھی کہ گاڑیوں کے ہمراہ حفاظت کے لیے کارکنان بھی ہوتے تھے۔ اس وقت پوری کی پوری گاڑیاں چھین جایا کرتی تھیں۔
سینیئر صحافی مبشر فاروق نے وی نیوز کو بتایا کہ کھالوں کے حوالوں سے حکومت ماضی میں بعض تنظیموں پر الزامات لگاتی رہی کہ کھالوں کی مد میں حاصل ہونے والی رقم دہشتگردی میں استعمال ہوتی ہے۔ ان تنظیموں کے خلاف آپریشن بھی ہوتا رہا اور کھالیں ضبط بھی ہوتی رہیں جیسے کہ ایم کیو ایم کے دور کی مثال ہے جس میں بڑے پیمانے پر کھالیں ضبط کی گئیں۔ بعد ازاں یہ معاملہ عدالت پہنچا۔ اس وقت عدالت نے ایم کیو ایم کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
مبشر فاروق بتاتے ہیں کہ کھالوں کو اکٹھا کرنے کا معاملہ 70 اور 80 کی دہائی سے چلا آرہا ہے۔ اوائل میں اس کا تعلق مذہبی جماعتوں سے تھا یا مدارس کو جاتی تھیں کھالیں، پھر آیا ایم کیو ایم کا دور۔ ظاہر سی بات ہے جس جماعت کے پاس طاقت آتی ہے وہ پھر اپنی طاقت دکھاتی بھی ہے ۔ ایم کیو ایم کھالیں خدمت خلق فاؤنڈیشن کے تحت جمع کرتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اوائل میں یہ کام بہت طریقے سے کیا جاتا تھا۔ صحیح رسیدیں بنا کرتی تھیں۔ خدمت خلق فاؤنڈیشن اسے بیچ کر اس کا پیسہ میت گاڑیوں، ایمبولنس سروس، اپنے شہدا کی مالی معاونت یا جیلوں میں موجود اپنے کارکنان کے لواحقین کی مدد کیا کرتی تھی۔
مبشر فاروق کے مطابق بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا کہ جماعت اسلامی کا جن علاقوں میں ہولڈ تھا، وہاں ایم کیو ایم ان کے سامنے آئی، ٹکراؤ ہوتا رہا لیکن اس عمل کو ایم کیو ایم مرکز سے کبھی پذیرائی نہیں ملی۔ ان لڑائی جھگڑوں کو منع کیا گیا۔ چوں کہ ایم کیو ایم نے جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان یا جمعیت علماء اسلام کی جگہ لی تھی تو تصادم کی فضا بنی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتوں میں ایم کیو ایم کو کھالیں جمع کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی اور اس صورت میں کھالیں بھی پکڑی گئیں، ان کے لوگ بھی حراست میں لیے گئے اور معاملات عدالت تک پہنچے جہاں سے ایم کیو ایم کو ریلیف مل جایا کرتا تھا۔
کھالوں سے گینگ وار کا تعلق
مبشر فاروق کہتے ہیں کہ گینگ وار کا معاملہ الگ اور اس کا عرصہ بھی بہت کم ہے۔ جب گینگ وار شروع ہوا۔ اس دوران امن کمیٹی بنی اور غنڈہ گردی ہوتی رہی اور اس غنڈہ گردی کا تعلق بھی تنظیمی سطح پر نہیں تھا بلکہ لڑکوں کے جو گروپس ہوتے تھے، ان کے آپس میں ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے کہ انفرادی حیثیت میں لوگ جانوروں کو گولی بھی مار دیا کرتے تھے لیکن گینگ وار کا مجموعے طور پر کھالوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
کھالوں کی پری بکنگ کا سلسلہ
سینیئر صحافی شاہ میر خان کہتے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے فلاحی تنظیموں کا لبادہ اوڑھ کر کھالیں جمع کرنا شروع کیں، اس کام میں سیاسی اور کالعدم تنظیمیں ملوث رہیں۔ بعض دفعہ تو یہ بھی دیکھا گیا کہ کھالیں جمع کرنے کے لیے پہلے سے بکنگ کرا دی جاتی تھی۔ اگر کوئی قربانی کا جانور لیکر آیا ہے تو اس کے گھر میں پرچی دی جاتی تھی کہ کھال ہمیں دی جائے گی۔ انکار کی صورت میں جانور کو مار دیا جاتا تھا۔
کھالیں جمع کرنے کا کام اتنی تیزی سے کیوں بڑھا؟
شاہ میر خان بتاتے ہیں کہ کھالیں جمع کرنے یا چھننے کا کام اتنی تیزی سے بڑھنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں تھا۔ کس تنظیم نے کتنی کھالیں لیں، کہاں بیچیں، کتنی رقم وصول کی اور اس رقم کا کیا کیا اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
اربوں روپے کا دھندا
شاہ میر خان ایک سال کے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ایک برس کراچی کی مختلف مویشی منڈیوں میں 15 ارب روپے کے جانور فروخت ہوئے۔ ان سے 3 سے 4 ارب روپے کا چمڑا فروخت کیا گیا لیکن اس کا تعلق کسی ایک جماعت سے نہیں تھا۔
اس رقم سے ہوتا کیا تھا؟
سینیئر صحافی شاہ میر خان کے مطابق اس رقم سے مسلح ونگز کی فنڈنگز کی جاتی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ 2013-14 میں قانون نافذ کرنے والے اس حوالے سے متحرک ہوئے۔ پھر نہ صرف نظر رکھی گئی بلکہ روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے۔
بھتے کی جدید شکل کھالیں جمع کرنا
شاہ میر خان اپنے ذرائع سے یہ بات بتاتے ہیں کہ کھالیں جمع کرنے میں آسانی یہ تھی کہ یہ تھا تو بھتہ ہی لیکن اسے لینا آسان تھا۔ گھر آئے، کھال لی اور چلے گئے۔ اس پر چیک اینڈ بیلنس تو تھا نہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا جسے کراچی کی حد تک نظر انداز کیا گیا۔ کوئی دیکھنے والا نہیں تھا کہ کتنی رقم آئی اور کتنی رقم کہاں کہاں خرچ ہوئی؟
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ذرائع نے بتایا کہ عید قرباں پر سب سے بڑا دھندا قربانی کے جانوروں کے بعد ان کے چمڑوں کا ہوتا تھا۔ اس بات کی اہمیت کا اندازہ ایم کیو ایم کو بھی تھا۔ ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں چمڑے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں اتنی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا جتنا گینگ وار کو ہوسکتا تھا۔ گینگ وار والے اگر اپنے علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف کوئی چیز فیکٹری تک لے کر جائیں گے تو پکڑے جائیں گے۔ گینگ وار کے عروج کے دور میں دیکھا گیا کہ وہ اپنے علاقوں تک رہتے تھے۔ چمڑے سے زیادہ بھتہ ان کی ترجیح تھی۔ ساتھ ہی اگر انہیں قربانی کے جانور میں دلچسپی ہوتی تو پورا جانور لے جاتے یا کوئی جانور لے کر آیا ہے اور بھتہ نہیں دے رہا تو جانور ہی کو گولی سے مار دیا جاتا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک اس چمڑے کی مد میں آنے والی کروڑوں روپوں کی ہے تو یہ حقیقت آج تک عیاں نہیں ہو سکی کہ یہ رقم کس مد میں استعمال ہو رہی تھی لیکن اس وقت جب یہ دھندہ اور چمڑوں کی چھینا جھپٹی اپنے عروج پر تھی تو ایم کیو ایم ذرائع سے پتہ چلتا تھا کہ چمڑوں سے ملنے والی رقم برطانیہ جاتی ہے اور براہ راست الطاف حسین کو موصول ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم ذرائع کہا کرتے تھے کہ ایم کیو ایم لندن دفتر کے اخراجات بہت ہیں جن کو کراچی سے پورا کیا جا رہا ہے۔ دوسرا پہلو اس کا یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس جتنی بھی رقم آتی تھی وہ تقسیم ہو جایا کرتی تھی۔ اس کا زیادہ حصہ لندن جبکہ باقی کی رقم کراچی میں استعمال ہوا کرتی تھی۔