جبری مشقت کا پھندہ

جمعہ 14 جون 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کہنے کو تو صحافت کا آغاز 1995ء میں رزنامہ خبریں اسلام آباد سے کیا جب ٹیسٹ لینے کے بعد اس وقت کے چیف رپورٹر فیاض ولانہ صاحب نے پوچھا کہ کب جوائن کریں گے؟

یہ سفر مختصر رہا لیکن “چُھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی” صحافت کا چسکا دوبارہ لاہور لے گیا اور مارچ 1999ء میں پاکستان ٹائمز میں جانا شروع کر دیا۔ فروری 2000ء میں ریڈیو پاکستان لاہور کا بطور کانٹریکٹ پروڈیوسر حصہ بن گیا۔ نئے آنے والے پرو ڈیوسرز کو عمومی طور پر شہر میں ہونے والے چنیدہ اور خبری اعتبار سے اہم پروگراموں کی کوریج کی ذمہ داری دی جاتی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ کسی پروڈیوسر کی تربیت کا یہ نہایت اہم لازمہ تھا۔

نئے نئے اور مختلف النوع لوگوں سے ملنا۔ سیاسی، سماجی، ثقافتی سمیت ہر شعبہ ِ زندگی سے وابستہ اہم افراد کو قریب سے دیکھنا، سُننا اور جاننا روز کا کام ہوتا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب مشرف نے نیا نیا زمامِ اقتدار سنبھالا تھا۔ اصلاحات اور تبدیلیوں کا ڈنکا ہر طرف بج رہا تھا۔ سیمینارز، کانفرنسز، سپموزیمز، تربیتی ورکشاپس اور بہت سی ایسی تقریبات ویسے تو ہوتی رہتی ہیں لیکن اس زمانے میں کچھ ز یادہ ہی ہورہی تھیں۔ خاص طور پر این جی اوز کا ظہور اور ان کی تقریبات کا بہت غلغلہ تھا۔

ان دنوں دو ڈھائی سال کے قریب میری ڈیوٹی بھی اہم تقریبات کی کوریج تھی۔ ان چند برسوں میں بے شمار تقریبات میں جانے اور ان کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ یقیناً آنے والے برسوں میں اگر مجھے کسی اہم ترین تقریب میں شمولیت کی دعوت ملتی تو مجھے لگتا میری ڈیوٹی لگ گئی ہے لہذا ایسی تقریبات میں جانا میرے لیے کئی قسم کی کشش کا باعث نہ رہا۔

اب بھی ایسا ہی ہے۔ جب بھی ایسی کوئی دعوت ملتی ہے فوراً سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی کسی تقریب میں جانے کا کوئی فائدہ بھی ہے یا محض سر گنے جائیں گے؟

۔گزشتہ ہفتے برادرم عون ساہی کا فون آیا کہ “بھائی جان آپ نے دو دن 5، 6 جون ایک ورکشاپ کے لیے دینے ہیں”

عون سے تعلق ایسا ہے کہ فوراً حامی بھر لی۔ عون کے بڑے بھائی اسد ساہی لاہور کے سینئر صحافی تھے۔ طویل عرصہ وہ روز نامہ جنگ لاہور کے لیے کرائم رپورٹنگ کرتے رہے۔ جب جیو کا آغاز ہو ا تو وہ ابتدائی ٹیم کا حصہ تھے۔ بعد ازاں جب موجودہ وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے روزنامہ اور ٹی وی “سٹی 2 ” کا آغاز کیا تو وہ اس کا حصہ بن گئے۔ اپنے کام اور پروفیشنل ازم کی وجہ سے ان کا شمار با اثر صحافیوں میں ہوتا تھا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے موجودہ صدی کے آغاز میں جب سول ایوی ایشن اتھارٹی اور سیال کوٹ چیمبر آف کامرس کے درمیان سمجھوتے کی یاد داشت پر دستخط ہونے تھے تو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پبلک ریلیشنز آفیسر کامران ملک نے پریس کلب لاہور سے سیالکوٹ جانے کے لیے ایک فلائنگ کوچ کا احتتام کر رکھا تھا۔ وہاں جاتے ہی ہمارا پہلا پڑا ؤ اسد ساہی کے قریبی عزیزوں کی ایک فیکٹری تھی جہاں ہماری خوب آؤ بھگت کی گئی۔

اسد صاحب سے جب بھی ملا قات ہوتی تو بہت اپنائیت سے ملتے۔ بد قسمتی سے وہ 2015 میں محض 48 سال کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ اپنی وفات سے چند روز قبل ان سے جیل روڈ لاہور کے ایک نجی اسپتال میں سرِ راہ تب ملاقات ہوئی جب وہ اپنی بیگم صاحبہ کو وہیل چئیر پر بٹھا کر آ رہے تھے۔ بھابھی ان دنوں بیمار تھیں۔

ایک دن اچانک پتا چلا کہ اسد ساہی وفات پا گئے ہیں تو دلی صدمہ ہوا کہ ابھی چند دن قبل تو وہ بھلے چنگے تھے۔ مُحسن نقوی نے اسد کی وفات کو ویسے ہی لیا جیسے کوئی اپنا، اپنے کُنبے کے جوان فرد کی موت کو لیتا ہے۔ اسد کے گاؤں جا کر ہر حوالے سے محسن نے ثابت کیا کہ اسد کی موت انفرادی سطح اور ادارے کے طور پر ان کے لیے کس قدر تکلیف کا باعث ہے۔

اسلام آباد ٹھکانہ بنا تو عون ساہی سے پہلا تعارف تو بطور علاقے کے صحافی ہی ہوا۔ عون نے اپنے گاؤں کا بتایا تو میں نے فوراً مرحوم اسد کا ذکر کیا۔ عون نے بتایا کہ میں ان کا ہی چھوٹا بھائی ہوں۔ فوراً اُسے دوبارہ گلے لگایا۔ تب سے اب تک اُسے برادرِ خورد ہی جانا۔ رب اُسے خوش رکھے اُس نے بھی ہمیشہ بڑے بھائی جیسی ہی عزت دی۔

عون خود بھی ایک لائق اور گُنی صحافی ہے۔ عون سے چھوٹا بھائی نوخیز ساہی بھی اسلام آباد کی صحافتی حلقوں میں ایک جان پہچانا نام ہے۔ اسد ساہی مرحوم کی بیٹی بھی دی نیوز لاہور میں کام کرتی ہیں اور بہت اچھا لکھتی ہیں مگر آج بھی سب ساہی فیملی کی لسٹ میں صحافت کے اعتبار سے مرحوم اسد کا نام ہی اوپر آئے گا۔

عون ساہی ملکی اور غیر ملکی کئی صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ صحافت کا عالمی “Pulitzer Prize” ایوارڈ بھی حا صل کر چُکے ہیں۔ کئی برس24 نیوز ٹی وی اسلام آباد کے بیورو چیف رہے۔ پی ٹی وی میں بطور ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز بھی کام کر چکے ہیں۔

عون اور میرے گاؤں کا فاصلہ بھی چند میلوں کا ہے۔ ڈسکہ شہر کے بالکل نواح میں ان کا گاؤں مندرا ں والا کئی حوالوں سے مشہور ہے۔ خاص طور دشمنی اور دلیری کی کئی ایسی داستانیں ہیں جن پر کئی ناول لکھے جا سکتے ہیں۔ اگر ان کا ذکر شروع کیا تو جبری مشقت کے حوالے سے دو روزہ تربیتی ورکشاپ کا ذکر بیچ میں ہی رہ جائے گا۔

انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اسلام آباد آفس میں صحافت کے تمام شعبہ جات، جیسے انگریزی، اردو، پرنٹ، الیکٹرونک، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا سے آئے ہو ئے صحافی موجود تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ بطور ٹرینر عون ساہی کا انداز ایسا تھا کہ کسی لمحے محوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ٹرینگ ہو رہی ہے۔ بلکہ سب صحافیوں کو محسوس ہوا کہ جبری مشقت کے مسئلے کو اجا گر کرنا ہمارا فرض ہے۔ آئی ایل او کے ڈاکٹر فیصل اقبال نے وضاحت سے بتایا کہ جبری مشقت کی کتنی اقسام ہیں اور پاکستان میں گھریلو ملازمین سے لے کر بھٹہ مزدوروں تک کتنے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔

بعد ازاں انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنٹری ڈائریکٹر گیئر نون سٹول سے صحافیوں کی تعارفی اور غیر رسمی ملا قات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ پاکستان معرضِ وجود میں آتے ہیں آئی ایل او کا ممبر بن گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ایک فعال ادارے کے طور پر آئی ایل او نے پاکستان میں بہت کام کیا ہے۔ انھوں چونکا دینے والی یہ خبر دی کہ 35 لاکھ پاکستانی جبری مشقت کا شکار ہیں۔

جبری مشقت محض کسی سے جبراً کام لینا نہیں بلکہ پیشگی دے کر کسی کو پابند کر لینا، مرضی کے برعکس کام کروانا، اور محنت کے عوض مناسب معاوضہ نہ دینا بھی شامل ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی خاص طور پر غیر ملکی تارکین وطن، وہ خواہ پاکستانی ہوں یا پاکستان میں مقیم غیر ملکی ہوں، ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ دوران ِ ورکشاپ عون ساہی نے کچھ حیران کُن معلومات بھی شیئر کیں جیسا کہ تارکین ِوطن کا صنعتی شُعبے میں سب سے زیادہ استحصال یورپ میں ہوتا ہے۔

دو دن کی اس ورکشاپ سے اندازہ ہوا کہ جبری مشقت کا خاتمہ در اصل ہمارا اپنا ہی کام ہے۔ جب صحافیوں کو ہی جبری مشقت کے تصور سے پوری طرح آگاہی نہیں تو عام لوگ، آجر اور اجیر کس طرح اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ یہ کتنی بڑی لعنت ہے۔

جبری مشقت دراصل ملکی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کی راہ میں رُکاوٹ اور انسانی آزادیوں کے گلے کا پھندہ ہے، اس سے جتنی جلدی ہم چھٹکارا پالیں گے، انسانی وقار اتنی ہی تیزی سے بلند ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp