چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے کہا ہے کہ عمران خان کی آڈیو سپریم کورٹ سے ریلیزنہیں ہوئی، آڈیو لیک پر عملے سے پوچھا تھا، آئی ٹی عملے کے مطابق آڈیو میں فون بجنے کی بھی آواز آرہی ہے، یہ نہیں بتا سکتا کہ آڈیو کہاں سے لیک ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بعض اوقات عدالتی رپورٹنگ میں ایسا ماضی کا پس منظر بیان کیا جاتا ہے جو ہم بھول چکے تھے، میں بھی بہت سال پہلے لکھا کرتا تھا، میری والدہ سیدہ قاضی عیسیٰ بھی آرٹیکل لکھتی رہیں، اس زمانے میں بہت تحقیق کے بعد لکھا جاتا تھا، آج کل کا زمانہ بہت آسان ہو گیا ہے فون اٹھاؤ اور جو کہنا ہے کہ دو، گالم گلوچ کا کلچر ختم تو نہیں ہو سکتا لیکن کم ضرور ہو سکتا ہے۔
اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے بھی کہا کہ اگر سماعت کے دوران آڈیو لیک ہوگئی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے، ویسے بھی اوپن ٹرائل تھا، اور سماعت ہورہی تھی۔ میرے نزدیک آڈیو لیک ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کیس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تبصرہ
ذوالفقارعلی بھٹو کیس کے فیصلے کے بعد ایک غیر ملکی نے ان سے کہا کہ کیا وہ حضرت عیسٰیؑ کے مقدمے پر بھی نظرثانی کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی جہاں انہوں نے منتخب ممبران سے حلف لیا۔
تقریب میں جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اخترافغان، اٹارنی جنرل آف پاکستان منصورعثمان اور سینیئر وکیل قلب حسن شاہ نے بھی شرکت کی۔
تقریب حلف برداری میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انہوں نے سب سے پہلے میڈیا قوانین مرتب کرکے اسے کتاب کی شکل میں شائع کیا۔
انہوں نے کسی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اچھی تحریر کے لیے ٹھنڈی آنکھ اور کھلا دل ہونا چاہیے، اچھا لکھنے کے لیے پڑھنا بھی ضروری ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس بولے کہ اس بارے ان کو ایک غیر ملکی نے کہا کہ آپ حضرت عیسٰیؑ کے مقدمے پر بھی نظر ثانی کرسکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ذوالفقارعلی بھٹو کیس کے فیصلے میں 627 پیرا گراف لکھے، جبکہ ہم نے اس مقدمے کے فیصلے میں 963 پیراگراف لکھے ہیں، فوجداری مقدمات میں اتنا طویل فیصلہ شائد کوئی اور موجود نہ ہو ، چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے اس لیے اس پر اب رائے دی جاسکتی ہے۔