زیادہ آمدن والے زیادہ ٹیکس دیں۔ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کہتے ہیں کہ زیادہ آمدن والوں کو زیادہ ٹیکس دینے میں کئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ بالکل، زیادہ آمدن والوں سے زیادہ ٹیکس لینا چاہیے مگر صرف تنخواہ دار طبقہ ہی کیوں یہ سارا بوجھ اٹھائے؟ اورنگزیب صاحب! حکومت تنخواہ داروں سے کئی گنا زیادہ آمدن والے کاروباری افراد سے زیادہ ٹیکس لینے میں کیوں ناکام ہے؟
چند سال قبل سابق وزیراعظم نواز شریف سے ایک انٹرویو میں حامد میر اور سہیل وڑائچ نے جب پوچھا کہ میاں صاحب! آپ کے پاس بے پناہ دولت ہے، شاندار رہائش گاہیں ہیں، بڑی بڑی گاڑیاں ہیں، دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں مگر آپ سالانہ انکم ٹیکس صرف پانچ ہزار روپے دیتے ہیں۔
میاں صاحب بوکھلا گئے۔ کہنے لگے: نہیں یہ سب جھوٹ ہے۔ ہم اپنے کاروبار میں کافی ٹیکس دیتے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ ہم سیلز ٹیکس یا کسی دوسرے ٹیکس کی بات نہیں کر رہے، انکم ٹیکس کی بات ہو رہی ہے۔ کوئی اور جھوٹ نہیں بول رہا بلکہ آپ نے اپنے گوشواروں میں خود لکھا ہے کہ آپ نے اس سال پانچ ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔
نواز شریف کہنے لگے کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ کیسے ہوا۔ وہ اپنے وکیل سے بات کریں گے۔ پھر اگلے سال میاں صاحب نے ٹیکس بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا اور اگلے سالوں میں تھوڑا مزید ٹیکس ادا کرنا شروع کردیا۔
حکومت کا زور صرف تنخواہ دار طبقے پر چلتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ ایف بی آر کے اہلکار اور افسران اگر دوہزار ارب ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں تو چھ ہزار ارب اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ بالکل درست، وزیراعظم جانتے ہیں کہ ان کے محکمے کاروباری افراد سے کتنی رشوت لیتے ہیں اور پھر ان سے معمولی ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ وزیرخزانہ اورنگزیب بھی کہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ کون کتنی گاڑیاں استعمال کر رہا ہے، دنیا بھر میں سفر کر رہا ہے، اس کے بچے کن سکولوں میں پڑھ رہے ہیں، کتنے بڑے ہوٹلوں میں قیام کرتا ہے اور کہاں سے کھانے کھاتا ہے، بجلی کے بل کتنے ادا کرتا ہے اور ٹیکس کتنا کم دے رہا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ وہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کو سب پتا ہے کہ کتنے ارب کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے۔ کتنی بجلی چوری اور کون بجلی چوری کر رہا ہے مگر کرپٹ محکموں کو گرفت میں لانے میں ہمیشہ سے ناکام رہی ہے۔ بڑے بڑے کاروباری افراد کروڑوں کی آمدن کماتے ہیں مگر معمولی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔
چند سال قبل میں ایک اچھے ادارے میں سربراہ کے طور پر کام کر رہا تھا اور میری تنخواہ میں سے ہر ماہ دو لاکھ روپے کے قریب انکم ٹیکس کاٹ کر تنخواہ ملتی تھی۔ سالانہ تقریباً 24 لاکھ روپے ٹیکس ادا کر رہا تھا۔ ایک جاننے والے کاروباری دوست نے بتایا کہ ان کی آمدن کروڑوں میں ہے مگر وہ سالانہ صرف ڈیڑھ لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جو ماہانہ چند ہزار روپے بنتا ہے۔ ان صاحب کی رہائش لاہور کے ایک پوش علاقے میں ہے۔ دو بڑی گاڑیاں ہیں۔ بچے بہترین سکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں اور جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ آئے روز اچھے ریسٹورانٹس میں کھانا کھاتے ہیں۔
اسی طرح دیگر کاروباری افراد بھی ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے؟ تو جواب ملتا ہے کہ حکومت انہیں کیا سہولتیں دے رہی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کرواتے ہیں تو پھر ٹیکس کیوں ادا کریں مگر تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس حاصل کرنا آسان ہے کہ انہیں ٹیکس کاٹ کر تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ اس لیے حکومت جانتی ہے کہ اس کے محکمے کرپٹ ہیں جنہیں کبھی ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کاروباری افراد سے ٹیکس لینے میں ناکامی کے بعد ان کے پاس ایک ہی حل بچتا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈال دو۔
اس کرپٹ نظام کے ذمہ دار بھی حکمران ہیں جن کے اپنے کاروبار ہیں اور اسی کرپٹ نظام سے وہ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دہائیاں گزر گئیں مگر وہ اس نظام کو درست نہیں کرسکے۔ اب شکوے کرتے ہیں کہ بہت سے سرکاری محکموں کو ختم کرنا پڑے گا یا پھر انہیں نجی شعبے کے حوالے کرنا پڑے گا کیوں کہ ان اداروں کے اربوں روپے کا نقصان حکومت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو نہیں جناب۔ یہ عوام بالخصوص تنخواہ دار طبقے اور غریب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر پورا کرنا پڑتا ہے۔ ان محکموں میں بھرتیاں بھی انہی نالائق، نااہل اور کرپٹ حکموانوں نے کیں اور انہی بھرتی ہونے والے افراد نے ان محکموں میں لوٹ مار کی اور اس حال تک پہنچایا۔
آج حکمرانوں کا شکوہ کرنا بہت عجیب لگتا ہے۔ انہیں شرم اور ندامت کوئی نہیں۔