اولمپک گیمز میں حصہ لینے والا پہلا فلسطینی ایتھلیٹ بدھ کے روز غزہ کے نصیرات پناہ گزین کیمپ میں جاری اسرائیلی حملوں اور محاصرے کے نتیجے میں بجلی کی بندش اور طبی قلت کے باعث گردے فیل ہونے کے باعث انتقال کرگئے۔
مزید پڑھیں
غیر ملکی میڈیا کے مطابق 61 سالہ ماجد ابو مراحیل سنہ 1996 میں اٹلانٹا میں ہونے والے اولمپک گیمز میں فلسطینیوں کی نمائندگی کرنے والے پہلے ایتھلیٹ تھے اور انہوں نے 10 کلومیٹر کی دوڑ میں حصہ لیا تھا۔
عالمی سطح پر اس کی کامیابی کے بعد سے 20 سے زیادہ فلسطینی مرد اور خواتین اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے کی جانب مائل ہوئے۔
جنازے کے بعد ان کے بھائی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ ایک فلسطینی آئیکون تھے اور ان کا نام ہمیشہ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھائی کو مصر لے جانے کی کوشش کی تھی لیکن پھر (اسرائیل کی طرف سے) رفح کراسنگ کو بند کر دیا گیا اور پھر بھائی کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
اولمپکس کی تیاری کے لیے ابو مرحیل اکثر غزہ میں اپنے گھر سے اسرائیل کے ساتھ ایریز کراسنگ تک روزانہ کی دوڑ میں نظر آتے تھے جسے اسرائیل نے اکتوبر میں پٹی پر مکمل ناکہ بندی کرنے کے بعد بند کر دیا تھا۔ پچھلے مہینے اس کے بعد پہلی بار اسے دوبارہ کھولا گیا۔
ابو مراحیل دیہاڑی دار مزدور تھے
اسرائیل میں دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرنے کے لیے انہیں اکثر اس کراسنگ سے گزرنا پڑتا تھا۔
اولمپکس میں شرکت کے بعد ابو مراحیل دوسرے فلسطینی رنرز کے کوچ بن گئے تھے اور امید کرتے تھے کہ ان کے شاگردوں کی صورت میں وہ دوبارہ بین الاقوامی مقابلوں میں موجود ہوں گے۔
وہ غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور فلسطینی نادر المصری کی کوچنگ کے لیے گئے تھے جنہوں نے بیجنگ میں سنہ 2008 کے اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔
ابو مراحیل کی موت نے غزہ میں گردے فیل ہونے والے بہت سے فلسطینیوں کے سنگین انجام کو اجاگر کردیا ہے۔
مارچ میں یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں گردے فیل ہونے والے 1,000 سے 1,500 کے درمیان مریض ہیں اور وہ طبی اور علاج معالجے کی خدمات، ادویات اور ادویات کی کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اکتوبر میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیلی فورسز نے انکلیو کا مکمل محاصرہ کیا ہوا ہے۔ 37,000 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کرنے کے علاوہ انہوں نے غزہ کے اسپتالوں اور صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو بار بار نشانہ بنایا اور ان پر حملے کیے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی طرف سے گزشتہ ماہ کے آخر میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ کے 36 اسپتالوں میں سے اب تک صرف 4 ہی گولہ باری اور اسرائیلی چھاپوں سے بچ پائے ہیں۔
تاہم اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے علاقے میں رسد کی کمی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کو روکنے کی تردید کی ہے حالانکہ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے امداد حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
طبی سہولیات کی عدم فراہمی و غذائی بحران کے باعث بچے بھی تیزی سے مر رہے ہیں
یاد رہے کہ حال ہی میں ایک 8 سالہ فلسطینی بچی حنان الزانین غزہ میں جاری انسانی بحران کی وجہ سے شدید غذائی قلت سہتے سہتے آخر کار دنیا چھوڑگئی۔ بچی کو علاج اور خوراک کے لیے مصر منتقل کیا جانا تھا لیکن اسرائیلی افواج نے اجازت نہیں دی۔
جہاں اسرائیلی ناکہ بندی ضروری امداد کی ترسیل کو روک رہی ہے وہیں یونیسیف کے مطابق خدشہ ہے 3000 مزید فلسطینی بچے بھی غذائی قلت کے باعث زندہ نہیں رہ سکیں گے۔