عید الاضحیٰ نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے جس میں مسلمان اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پوری کرنے کے لیے حلال جانوروں کی قربانی کرتے ہیں بلکہ یہ ایک معاشی سرگرمی بھی ہے جس سے بے شمار افراد کی روزی روٹی جڑی ہے۔
جانور پالنے والوں، ان کا چارہ، گھنٹیاں، رسیاں، ہار اور دیگر آرائش کی چیزیں بیچنے والوں، چھریاں، ٹوکے، کوئلہ، انگیٹھیاں، اور سیخیں فروخت کرنے والوں سے لے کر عید پر جانور ذبح کرنے اور گوشت تیار کرنے والے قصائیوں تک، کئی محنت کش اور کاروباری افراد کا روزگار عیدِ قربان سے جڑا ہے۔
مزید پڑھیں
انہی افراد میں ایسے محنت کش بھی ہیں جو ملک کے کئی علاقوں سے عید سے قبل جڑواں شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ انہیں یہاں موسمی قصائی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عید کے تین دنوں میں اپنے حصے کا رزق کما کر واپس اپنے آبائی علاقوں کا رخ کر لیتے ہیں۔
کشمیر اور ہزارہ سے آئے ہوئے قصائی
اسلام آباد میں گزشتہ 2 دہائیوں سے قصائی کی دکان کرنے والے مقصود شاہ نے بتایا کہ راولپنڈٰی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں موسمی قصائیوں کی بڑی تعداد کشمیر اور ہزارہ سے آتی ہے۔ مری سے بھی بڑی تعداد میں قصائی یہاں کا رخ کرتے ہیں لیکن سب سے زیادہ قصائی گلیات سے آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر عید پر اپنے گاہکوں کے علاوہ فلاحی تنظیموں کو بھی قصائیوں کا بندوبست کر کے دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہزارہ اور کشمیر سے سب سے زیادہ تعداد میں محںت کش آتے ہیں۔ ان میں سے کئی جڑواں شہروں میں موجود ان کے تعلق دار قصائیوں کے بلاوے پر آتے ہیں کیونکہ قصائیوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر قربانی کا کام پکڑا ہوتا ہے جسے کرنے کے لیے انہیں مزید قصائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مقصود کے مطابق یہ قصائی ہر جانور میں سے کمیشن وصول کرتے ہیں اور بعض تو موسمی قصائیوں کے ساتھ دیہاڑی کے حساب سے بھی معاملات طے کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں فی موسمی قصائی عید کے تین دنوں میں ایک سے 3 لاکھ روپے کما کر جاتا ہے۔
پٹھان بھائی بطور قصائی
مقصود شاہ کے مطابق موسمی قصائیوں کی بڑی تعداد کے کشمیر اور ہزارہ سے آنے کے باوجود عید کے دوران سب سے اچھی کمائی پٹھان بھائی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پٹھان خاص طور پر عید کے دنوں میں موسمی قصائی کے طور پر اپنے علاقوں سے جڑواں شہروں کا سفر نہیں کرتے، بلکہ پہلے سے یہاں مختلف محںت مزدوری کے کام کرنے والے پٹھان ہی عید کے دنوں میں قصائیوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان کے دوردراز علاقوں، خاص کر پہاڑی علاقوں میں، لوگ اپنی قربانی خود کرتے ہیں لہذا وہ ٹرینڈ ہوتے ہیں اور پروفیشنل قصائیوں سے کسی طور کم نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ پٹھان بھائی جڑ کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں، یوں ان میں سے چند قربانی کا کام پکڑنا شروع کرتے ہیں، اور اپنی برادری یا علاقے کے لوگوں کی ٹیم بنا کر جڑواں شہروں کے ہر علاقے میں بطور قصائی خدمات دینا شروع کر دیتے ہیں۔
موسمی قصائیوں کے ریٹ
مقصود شاہ نے بتایا کہ کشمیر اور ہزارہ سے آںے والے موسمی قصائی اس بار 5 ہزار فی بکرا اور 15 ہزار روپے فی بیل چارج کر رہے ہیں۔ تاہم پٹھان قصائیوں کا کوئی طے شدہ ریٹ نہیں ہوتا، ان کی مرضی ہو تو 2 ہزار روپے میں بھی بکرا قربان کر دیتے ہیں، جبکہ موقع ملے تو 50 ہزار فی بیل بھی وصول کر لیتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عید کے پہلے دن موسمی قصائیوں کا ریٹ زیادہ ہوتا ہے۔ باقی کے دو دنوں میں یہ کم ریٹ پر بھی قربانی کر لیتے ہیں۔ عید کے پہلے دن قربانی کا کام صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اہلِ تشیع اسی وقت سے قربانی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ فجر کی اذان سے دن 11 بجے تک ریٹ تیز ہوتا ہے لیکن قصائی کی سب سے زیادہ مانگ عید کی نماز کے فوراً بعد کے گھنٹوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس وقت کے لیے یہ من مرضی کے ریٹ چارج کرتے ہیں۔
سب کی نظر قصائی کی کمائی پر
عیدِ قربان کے موقع پر کشمییر کے علاقے راولاکوٹ سے ہر سال جڑواں شہروں میں بطور موسمی قصائی خدمات انجام دینے والے خورشید خان کو شکوہ ہے کہ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ عید کے دنوں میں قصائی شہریوں کو لوٹ کر بوریاں بھر کر پیسے لے جاتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں، بلکہ ہم اپنے بیوی بچوں اور والدین کے ساتھ عید منانے کے بجائے مزدوری کی تلاش میں نکلتے ہیں اور پیٹ کی آگ بجھانے کو چار پیسے کما کر آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عید کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپے کماتے ہیں جن میں سے شہر میں رہنے، کھانے پینے اور سفر کے اخراجات بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ پیسے بھی کمانے کے لیے ہم صحیح معنوں میں اپنی کمر توڑ دیتے ہیں کیونکہ 3 دنوں میں 20 سے 30 جانور ذبح کرنا، کھال اتارنا، بوٹیاں بنانا اور ہڈیاں کاٹنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہم سے اکثر تو واپس جا کر تھکاوٹ کے باعث مہینوں بستر پر گزار دیتے ہیں۔
خورشید کا کہنا تھا کہ لوگوں کو صرف قصائیوں کی اجرت نظر آتی ہے، محنت نظر نہیں آتی۔ اگر قصائیوں کی کمائی سے اتنا ہی جلتے ہیں تو خود بھی قصائی کیوں نہیں بن جاتے۔
انہوں نے بتایا کہ بعض غصے والے اور ٹکریں مارنے والے بیل قصائیوں کی جان بھی لے لیتے ہیں۔ اپنے بچوں کی روزی کمانے نکلا ان کے ضلع کا ایک قصائی چند سال پہلے راولپنڈی میں ایک بیل کی ٹکر سے جان کی بازی ہار گیا تھا۔