حج کا ایک اہم حصہ جمرات کی رمی کرنا ہے، جسے شیطان کو کنکریاں مارنا بھی کہا جاتا ہے۔ دسویں ذی الحجہ کو حاجی جمرہ عقبہ (جو مکہ کے قریب ترین جمرہ ہے) کی رمی کرتے ہیں۔ اگلے تین دن (ایام تشریق) میں حاجی تینوں جمرات کی رمی کرتے ہیں؛ پہلے جمرہ صغریٰ، پھر جمرہ وسطیٰ، اور آخر میں جمرہ عقبہ کی رمی کرتے ہیں۔ ہر جمرے پر سات کنکریاں مار کر، “بسم اللہ، اللہ اکبر” کہتے ہیں۔ جمرہ عقبہ کے علاوہ ہر جمرے کے بعد ہاتھ اٹھا کر کعبہ کی طرف منہ کر کے جو چاہیں دعا مانگتے ہیں۔
رمی کا وقت
رمی کا وقت حاجی کے منیٰ پہنچنے سے ہی شروع ہوتا ہے۔ ایام تشریق میں، رمی کا آغاز زوال آفتاب (ظہر کی اذان کا وقت) سے لے کر اگلی صبح کے طلوع فجر تک ہوتا ہے، لیکن سنت کے مطابق زوال سے غروب تک رمی کرنا افضل ہے۔
ستون اور سات کنکریاں
تینوں جمرات منیٰ کے مقدس مقام پر واقع ہیں، جہاں حاجی ہر جمرے پر سات کنکریاں مارتے ہیں۔ ہر کنکری کا سائز چنے کے دانے سے بڑا اور بندق سے چھوٹا ہونا چاہیے۔ ابتدائے اسلام میں یہ مقامات بے نشان تھے، بعد میں ہر مقام پر ایک چوکور ستون اور اس کے اردگرد حوض بنایا گیا تاکہ رمی کا مقام واضح ہو سکے۔
سعودی عرب کی حکومت نے ہر رمی کی جگہ پر دیوار بنادی ہے تاکہ یہ چوکور ستون کی جگہ لے سکے، اور حوض کو وسیع کر دیا گیا ہے۔ ان مقامات پر کئی منزلیں تعمیر کی گئی ہیں اور ہر منزل پر ایک دیوار اور حوض بنایا گیا ہے، تاکہ عازمینِ حج کی بڑی تعداد کو سہولت فراہم کی جا سکے۔ جو بھی حاجی حوض میں کنکریاں پھینکے گا، اس کی رمی صحیح شمار ہوگی، چاہے وہ دیوار کو لگے یا نہ لگے۔
رمی کرنے کے شرائط
رمی کے لئے ضروری ہے کہ پھینکی جانے والی چیز کنکری ہو اور وہ دائرے کے حوض میں گرے۔ کنکریاں حاجی ایک ساتھ نہیں پھینک سکتا، بلکہ ایک ایک کر کے پھینکنی ہوں گی۔ اگر سات کنکریاں ایک ساتھ پھینکیں جائیں تو ایک ہی رمی شمار ہو گی۔ جمرات کی رمی کی ترتیب پہلے جمرہ صغریٰ، پھر جمرہ وسطیٰ، اور آخر میں جمرہ عقبہ ہونی چاہیے، اس ترتیب کے خلاف رمی درست نہیں ہوتی۔