الیکشن ٹربیونلز کا قیام : الیکشن کمیشن کی حکم امتناع کی استدعا مسترد، معاملہ 3 رکنی کمیٹی کے سپرد

جمعرات 20 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونلز کے قیام کا فیصلہ معطل کرنے کی الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ 3 رکنی کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔

کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کیس کے تھوڑے حقائق بتا دیجیے، الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ کیس میں آئین کے آرٹیکل 219(سی) کی تشریح کا معاملہ ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹریبونلز کی تشکیل کے لیے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے، ٹریبونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، تمام ہائیکورٹس سے خطوط کے ذریعے ججز کے ناموں کی فہرستیں مانگیں گئیں، خطوط میں ججز کے ناموں کے پینلز مانگے گئے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دیے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹریبونلز کے لیے نوٹیفائی کردیا گیا، 26 اپریل کو مزید 2 الیکشن ٹریبونلز تشکیل دیے گئے۔

قابل احترام ججز کو کہا جاتا ہے، چیف جسٹس

کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے ہائیکورٹ کے لیے قابل احترام  کا لفظ کہنے پر  ریمارکس دیے کہ آپ ہائیکورٹ کو قابل احترام کہہ رہے ہیں، یہ ججز کے لیے کہا جاتا ہے، انگریزی زبان انگلستان کی ہے، کیا وہاں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہاں پارلیمنٹیرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے، ایک دوسرے سے گالم گلوچ ہوتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ احترام ہو، الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے؟ کیا الیکشن کمیشن قابل احترام نہیں؟۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے عدالت کو بتایا کہ 4 ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازع نہیں ہوا۔

چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازع کا کوئی حل نکل آتا؟ چیف جسٹس کا سوال

جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے؟ کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازع بنانا لازم ہے؟ چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازع کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازع تھا، رجسٹرار ہائیکورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جارہے ہیں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیاز الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن C بالکل واضح ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پر حلف نہیں لیا، سپریم کورٹ نے جب جب آئینی تشریح کی، پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔

2 آئینی اداروں کی لڑائی میں آپ کا کیا لینا دینا ہے؟ چیف جسٹس کا سلیمان اکرم راجہ سے مکالمہ

کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے مؤقف اپنایا کہ ہم نے 9 ججز مانگے تھے، 2 دیے گئے، الیکشن کمیشن کو 4 اپریل کو 6 ججز دیے گئے.

چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل سلیمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ فرض کر لیں 2 آئینی اداروں کی بظاہر لڑائی ہے، تو اس معاملے میں آپ کا کیا لینا دینا ہے؟

چیف جسٹس نے صدارتی آرڈیننس پر سوالات اٹھا دیے

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے صدارتی آرڈیننس پر سوالات اٹھا دیے اور کہا کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کوبند کردیں، آرڈینینس لانا پارلیمان کی توہین ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ٹریبونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ ججز کا قانون کب بنایا گیا؟ صدارتی آرڈیننس کے زریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے۔

’پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جاسکتا ہے، آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی؟ ایمرجنسی تھی؟ الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرڈیننس کابینہ اور وزیراعظم کی خواہش تھی۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے یا کابینہ کی؟ جس پر وکیل الیکش کمیشن نے کہا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائیکورٹ فیصلے کی نفی کی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد

عدالت نے  الیکشن ٹریبونلز کے قیام کا فیصلہ معطل کرنے کی الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے معاملے پر لارجز بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ 3 رکنی کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل 2 ججز اس وقت کراچی اور لاہور رجسٹری میں ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس آیندہ ہفتے ہی ہوگا، اجلاس میں اس معاملے پر لارجز بینچ کی تشکیل کے لیے غور ہوگا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل ہوگا تو ہم لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے بامعنی مشاورت کر سکیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سلیمان اکرم راجہ صاحب حکم امتناع جاری کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں، ہم الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے مشاورت کے لیے روک نہیں رہے،  ممکنہ طور پر پیر کے روز چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بطور جج سپریم کورٹ حلف لے لیں گے۔

سندھ اور بلوچستان میں الیکشن ٹربیونلز کیسے تشکیل پائے، ریکارڈ طلب

عدالت نے سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ میں الیکشن ٹریبونلز کے قیام کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار کی تفصیلات بھی الیکشن کمیشن سے طلب کر لی ہیں۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ خیبرپختونخوا میں الیکشن ٹریبونلز الیکشن کمیشن نے قائم کیے ہیں، بلوچستان کا میں چیف جسٹس تھا میں نے کہا کہ الیکشن ٹریبونلز کا قیام الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، ہمیں تمام صوبوں کا چارٹ فراہم کریں۔

عدالت نے تمام ہائیکورٹس اور الیکشن کمیشن کے درمیان ٹریبونلز کی تشکیل کے لیے ہونے والی خط و کتابت کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔

سپریم کورٹ کا تحریری حکمنامہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوا دیا، حکمنامے میں میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 29 مئی کی لاہور ہائیکورٹ کی ججمنٹ پر اپیل دائر کی، الیکشن کمیشن نے استدعا کہ کہ الیکشن ٹریبونل کی تعیناتی کا کیا ہائیکورٹ اختیار رکھتا یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ الجہاد کیس، ریاض الحق کیس کی روشنی میں دیا، الیکشن کمیشن کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کی تشریح قانون کے مطابق نہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق رٹ پٹیشن نہیں بنتی کیونکہ کنسلٹیشن جاری تھی۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ سلمان اکرم راجا نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن جوڈیشل باڈی نہیں جو ٹریبونل ججز لگائے، سلمان اکرم راجا کے مطابق الیکشن کمیشن کو انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنی چاہیے تھی نہ کہ براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کرتا

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ سلمان اکرم راجا نے استدعا کی کہ 5 رکنی لارجر بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 کے ذریعے قانون کی تشریح کرے۔

عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ لیگل تشریح کا ہے، فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہیں، الیکشن کمیشن کی اپیلیں پریکٹس آینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی کو بھجوائی جاتی ہیں، 3 رکنی کمیٹی جلد از جلد لارجر بینچ تشکیل دے.

عدالت نے حکم دیا ہے کہ الیکشن کمیشن تمام ہائیکورٹس کا ٹریبونل سے متعلق نوٹیفکیشنز عدالت میں جمع کروائے، الیکشن کمیشن کی جانب سے حکم امتناع کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp