عید الاضحیٰ سے قبل ملک بھر میں مویشی منڈیاں لگتی ہیں تاکہ شہری اپنی گنجائش کے حساب سے مناسب جانور خرید سکیں لیکن اس بار پاکستان بھر میں جانوروں کی قلت کا سامنا رہا، ساتھ ہی کئی شہری جانور خریدنے سے بھی محروم دکھائی دیے۔
مزید پڑھیں
ملک بھر میں ماضی میں دیکھا گیا کہ عید کے تیسرے روز تک مویشی منڈیوں میں جانور باآسانی مل جاتے تھے لیکن اس سال عید سے 2 روز قبل ہی منڈیاں سنسان نظر آرہی تھیں۔ آخری دنوں میں جانور یا تو دستیاب ہی نہیں تھے اور اگر کچھ موجود تھے تو وہ قوت خرید سے باہر تھے۔
اس حوالے سے مختلف آرا سامنے آرہی ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مویشی ملک سے باہر جانے کی وجہ سے کم پڑ گئے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس بار جانور زیادہ خریدا گیا لیکن جانوروں کی کمی کی اصل وجہ کیا رہی اس حوالے سے ہم نے ماہرین سے بات کی ہے۔
ڈیری فارمنگ کی اشد ضرورت ہے
ڈیری اینڈ کیٹل فارمنگ ایسوسی ایشن کے صدر شاکر عمر گجر نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے بیوپاری ملک بھر سے جانور کراچی لیکر آتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا لیکن خریداروں کا شکوہ ہے کہ جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں بیوپاریوں کا قصور نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے حکومت نے بیوپاریوں کو ترغیب ہی نہیں دی کہ وہ چھوٹے بچے کو پالے، لیکن اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی ڈیری فارمنگ میں جدت لے کر آئیں تاکہ چھوٹے جانوروں کی جانیں بچ سکیں اور ساتھ ہی دودھ اور گوشت کو اچھا بنایا جاسکے۔
شاکر عمر گجر کہتے ہیں کہ اس وقت سرکاری سطح پر جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں پہلی بار وقت سے پہلے مویشی منڈیاں خالی ہوچکی تھیں، ہماری جامعات کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض ادا کریں تاکہ جانوروں کے بچوں کی جان بچائی جاسکے اور بیوپاری ان کو پال سکیں۔
ملک میں جانوروں کی کمی کی وجہ کیا رہی؟
شاکر عمر گجر کے مطابق دودھ دینے والے جانور روزانہ زبح کیے جارہے ہیں اور ان کے بچے بھی ذبح کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے اس بار مویشی منڈیاں وقت سے قبل خالی ہوگئی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبے اور ان کے ساتھ ایگری کلچر یونیورسٹیز کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا کہ نسل کو بچانے اور بڑھانے میں کیا کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو بیوپاریوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور اگر آج اس حوالے سے نہیں سوچا گیا تو مستقبل میں نہ صرف دودھ کی پیداوار متاثر ہوگی بلکہ عید الاضحیٰ کے موقع پر مویشی منڈیاں بھی سنسان ہوں گی اور جو جانور منڈی تک پہنچیں گے وہ قوت خرید میں نہیں رہیں گے۔
چیئرمین آل پاکستان لیدر گارمنٹس ایسوسی ایشن امان اللہ آفتاب نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ اس بار گزشتہ برس کے مقابلے میں ملکی حالات اور مہنگائی کے باعث شہریوں کا زیادہ رجحان اجتماعی قربانی کی جانب رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار 28 سے 30 لاکھ بڑے جانوروں کی قربانی ہوئی ہے جبکہ 33 لاکھ بکرے، 2 لاکھ دنبے، 3 لاکھ بھینسیں اور ایک لاکھ اونٹ قربان ہوئے۔
کھال کتنے میں بک رہی ہے؟
امان اللہ آفتاب کہتے ہیں اگر کھالوں کی بات کی جائے تو گائے کی کھال 1500 سے 1800 روپے تک فروخت ہوئی ہے اسی طرح بکرے کی کھال 450 سے 500 ،دنبے کی 150 سے 200، اونٹ کی کھال 450 سے 500 روپے تک فروخت ہوئی اور مجموعی طور پر تمام کھالوں کی مالیت 6 ارب روپے تک بن رہی ہے۔
قربانی کی کھالیں کب تک کام میں آسکتی ہیں؟
امان اللہ آفتاب کے مطابق قربانی کے جانوروں سے جمع ہونے والی کھالیں تقریباً 4 ماہ تک زخیرہ کی جاسکتی ہیں اور 4 ماہ تک اس سے مصنوعات بنائی جا سکتی ہیں جبکہ 25 سے 30 ارب روپے ان کھالوں سے زرِمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔