خیبرپختونخوا میں لوڈشیڈنگ پر صوبائی حکومت اور وفاق کے درمیان جاری تنازع ایک بار پھر بھڑک اٹھا ہے، صوبائی حکومت نے اب مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی علاقے میں بجلی کی بندش 12 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ تاہم پی ٹی آئی حکومت کا موقف عوام نواز دکھائی دیتا ہے، لیکن اس سے بجلی چوری کے خلاف جنگ میں رکاوٹیں پیدا ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ کیونکہ وفاقی حکومت نے موقف اپنایا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی چوری زیادہ ہے ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی زیادہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے زیادہ تر حصوں کو بجلی فراہم کرنے والے نیٹ ورک پیسکو پر اوسطاً 60 فیصد تک لائن لاسز بڑھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پیسکو کے صارفین اوسطاً ہر 10 روپے کی بجلی کے لیے صرف 4 روپے ادا کرتے ہیں۔ باقی ملک بھر میں بل ادا کرنے والے دوسرے صارفین اٹھا لیتے ہیں، کیونکہ یہ یکساں قومی ٹیرف میں شامل ہوتا ہے۔
’پیسکو ان ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں شامل ہے جو باقاعدگی سے بجلی کی زیادہ چوری اور نقصان کی اطلاع دیتی ہیں‘۔
بلوں کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے والوں کو جرمانہ کرنے کے لیے بجلی کی بہت سی تقسیم کار کمپنیاں کم وصولی والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کر رہی ہیں جس کی وجہ سے بل ادا کرنے والے صارفین کو بھی گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
دریں اثنا وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا اپنے صوبے کے بجلی کے بحران پر اس طرح کا ردعمل ان کی پارٹی یا صوبے کی عوام کے لیے پسندیدہ تو ہو سکتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک ایسے مسئلے کے لیے متضاد رویہ اختیار کر رہے ہیں جسے ذمہ داری سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
بجلی گرڈ اسٹیشنوں میں توڑ پھوڑ کرنے والے مظاہرین کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے، علی امین گنڈا پور کو چاہیے کہ وہ اپنے صوبے کی عوام کو اپنے واجب الادا بلوں کی ادائیگی کے لیے حوصلہ افزائی کریں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کریں کہ چوری کو کم کیا جا سکے۔
دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا حکومت کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ مسئلہ کہاں پر ہے، ابھی پچھلے مہینے صوبائی حکومت کی جانب سے اسی معاملے پر وفاقی حکومت کے ساتھ خوش اسلوبی سے بات چیت کا اختتام بھی کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے متعدد مواقع پر تجویز پیش کی کہ مرکز کی طرف سے صوبے کے واجب الادا واجبات کو صوبے کی بجلی کی واجبات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، لیکن جبکہ وہ اپنے صوبے کا منصفانہ حصہ مانگنے کے حق میں بھی ہیں۔ بظاہر تو ان کے اس مطالبے پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، کیونکہ مرکزی حکومت بھی شدید مسائل کا شکار ہے۔
لہذا یہی بہتر ہے کہ صوبے اور وفاق دونوں کو اس گڑبڑ سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے، اور اس وقت تک مظاہرین کو بجلی کے گرڈ میں مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جسے خیبرپختونخوا حکومت کو معاف نہیں کرنا چاہیے۔
وزیر اعلیٰ علی امین کا حالیہ بیان
منگل کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وفاق کا خیبر پختونوا کے ساتھ روّیہ ٹھیک نہیں ہے، حکومت انتقام لے رہی ہے پہلے سے کم بجلی مزید کم کر دی ہے وفاقی نے رویہ ٹھیک نہ کیا تو ایک بار پھر بات کرنا پڑے گی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ عید الاضحیٰ پر خیبر پختونخوا میں بدترین لوڈشیڈنگ کی گئی جس پر وفاقی حکومت جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لے رہی ہے، لیکن بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر ہم چپ نہیں رہیں گے، وفاقی حکومت سے دوبارہ بات کرنا پڑے گی وفاق کو ہمیں جواب دینا ہوگا۔
علی امین گنڈا پور نے الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت نے صوبے کی بجلی پہلے سے کم کردی تھی، جس کا مطلب ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام سے انتقام لیا جا رہا ہے۔
علی امین گنڈا پور وفاق میں بیٹھی حکومت کو فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر وفاق کے ساتھ عنقریب دوسری بیٹھک ہوگی، لائن لاسز کے معاملے پر واپڈا کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں لیکن وفاق کی طرف سے ہمارے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا جا رہا ہے۔
علی امین گرڈ اسٹیشن پہنچ گئے
2 روز قبل وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اپنے علاقے کی بجلی بحال کرنے ڈی آئی خان گرڈ اسٹیشن پہنچ گئے۔ انہوں نے اپنے اعلان کے مطابق لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12 گھنٹے فکس کر دیا۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا اب کسی علاقے میں 12 گھنٹے سے زائد لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، اراکین اسمبلی اپنے علاقوں میں گرڈ اسٹیشنز کا دورہ کرکے لوڈ شیڈنگ شیڈول پر عملدرآمد کروائیں۔