کراچی نا صرف پاکستان کا معاشی حب ہے بلکہ اس شہر نے کرائم کی دنیا میں بھی بڑے بڑے ناموں کا عروج و زوال دیکھا، شہر میں قتل وغارت گری، دہشتگردی، بھتہ خوری، لوٹ مار جیسے واقعات میں کبھی سرے سے پتا ہی نہیں چل پاتا تو کبھی بڑے بڑے نام منظرِ عام پر اس وقت آتے ہیں جب انہیں تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔
اس میں سب سے بڑھ کر حیران کن پہلو یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد ان ملزمان کا اعترافی بیان چاہے وہ مجسٹریٹ کے روبرو ہو، ویڈیو پر مبنی ہو یا پھر جے آئی ٹی کے سامنے ہو منظر عام پر آجاتا ہے، جس میں ملک کی قد آور سیاسی شخصیات پر سنگین نوعیت کے الزامات سامنے آتے ہیں اور نیا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
اس تحریر میں بات کرتے ہیں اس طرح کے متعدد بیانات کی جو مختلف ملزمان نے جے آئی ٹیز اور مجسٹریٹ کے روبرو دیے، لیکن کیا ان بیانات کی روشنی میں کسی کے خلاف کوئی تحقیقات ہوئیں یا ملزمان کو سزائیں ہوسکیں؟
عزیر جان بلوچ
سب سے پہلے بات کرتے ہیں عزیر جان بلوچ کے بیان کی، لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ اس وقت عدالتی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف 72 سے زیادہ مقدمات درج تھے جن میں زیادہ تر میں عزیر بلوچ عدم شواہد کے بنیاد پر بری ہو چکے جبکہ درجن بھر مقدمات اب بھی زیر سماعت ہیں۔
عزیر بلوچ کے دو بیانات ریکارڈ ہوچکے جن میں ایک جے آئی ٹی کے سامنے جبکہ دوسرا مجسٹریٹ کے سامنے 164 کا اعترافی بیان ہے۔
جے آئی ٹی میں تو عزیر بلوچ نے کسی سیاسی رہنما کا نام نہیں لیا البتہ مجسٹریٹ کے سامنے 164 کے بیان میں انہوں نے صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، ذوالفقار مرزا اور قادر پٹیل سمیت دیگر کے نام لیے اور ان سے اپنے تعلقات کا نا صرف اظہار کیا بلکہ یہ بھی انکشاف کیا کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے کہنے پر ان کے خلاف بننے والے مقدمات ختم کرائے گئے۔
واضح رہے کہ عزیر بلوچ اس بیان سے کئی بار منحرف ہوچکے ہیں اور عدالت کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ انہوں نے یہ بیان دیا ہی نہیں۔
قتل کی ہدایات ندیم نصرت نے الطاف حسین کے حکم پر دیں، محبوب غفران
کے ای ایس سی کے سابق مینیجگ ڈائریکٹر شاہد حامد قتل کیس کے گرفتار ملزم محبوب غفران نے مجسٹریٹ کے روبرو اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ مجھ سمیت 4 افراد نے شاہد حامد کی گاڑی پر فائرنگ کی اور میرے ساتھ صولت مرزا، منہاج قاضی، راشد اختر اور آصف باری شامل تھے جبکہ قتل کی ہدایات ندیم نصرت نے الطاف حسین کے حکم پر دیں۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں رحمان عرف بھولا کا بیان
سانحہ بلدیہ فیکٹری جس میں 250 انسانوں کو زندہ جلایا گیا یہ ایک انسانیت سوز اقدام تھا، اس کیس میں گرفتار مرکزی ملزم رحمان بھولا نے اپنے اعترافی بیان میں انکشاف کیا تھا کہ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری علی انٹر پرائز میں آگ اس نے لگائی جس کا حکم ایم کیو ایم کے حماد صدیقی نے دیا جبکہ زبیر عرف چریا نے معاونت کی۔
رحمان بھولا نے اپنے بیان میں یہ بھی کہاکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بھتہ خوری، قتل و غارت گری سمیت دیگر جرائم ایم کیو ایم کی پالیسی کا حصہ تھے۔
سعید بھرم کا بیان
ایم کیو ایم سے وابستہ سعید بھرم نے مجسٹریٹ کے روبرو اپنے اعترافی بیان میں انکشاف کیاکہ شہر میں متعدد حملے کیے گئے، کئی لوگوں کو ٹارگٹ کرکے نشانہ بنایا۔ جبکہ انہوں نے اپنے بیان میں وارداتوں میں ’را‘ ایجنٹس کے ساتھ کا بھی انکشاف کیا تھا۔
سعید بھرم کے بیان کے مطابق انہیں دہشتگردی کی ہدایات ایم کیو ایم کے ندیم نصرت، فاروق ستار، وسیم اختر، حیدر عباس رضوی سمیت دیگر رہنما دیا کرتے تھے۔
ملزم سعید بھرم نے اعترافی بیان میں کہاکہ 2005 اور 2006 میں ایم کیو ایم لندن کے محمد انور نے کال کرکے کہا کہ ایم کیو ایم بانی نے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے ٹارگٹ کلنگ ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔
ملزم نے صولت مرزا، اجمل پہاڑی و دیگر ٹارگٹ کلرز کے ہمراہ شہر میں متعدد ٹارگٹ کلنگ، جلاؤ گھیراؤ اور خوف و ہراس پھیلانے کی وارداتیں کرنے کا بھی اعتراف کیا۔
ایسے بیانات صرف چند روز تک میڈیا پر چلتے ہیں پھر کوئی پیشرفت سامنے نہیں آتی، قانونی ماہر عابد زمان
قانونی ماہر عابد زمان کا اس طرح کے بیانات کے حوالے سے کہنا ہے کہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ جے آئی ٹیز اور 164 کے اعترافی بیانات میں ملزمان نے بڑے نام لے کر سنگین انکشافات کیے، تاہم وہ انکشافات کچھ روز تک تو میڈیا پر تو چلے مگر ان کی مزید کھوج ہوئی نا ہی کبھی کوئی پیشرفت نظر آئی۔
انہوں نے کہاکہ عزیر بلوچ نے مبینہ طور پر پیپلزپارٹی قیادت پر سرپرستی کا الزام تو لگایا لیکن کیا اس پارٹی کی قیادت سے اس حوالے سے تحقیقات ہوئیں؟
ان بیانات کی اتنی اہمیت نہیں رہی کہ کسی کو سزا سنائی جاسکے
ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ان بیانات کی اتنی اہمیت نہیں رہی کہ ان پر کسی کو سزا سنائی جاسکے۔
انہوں نے مزید کہاکہ عزیر بلوچ تو بار بار عدالت میں قسم کھا کر اپنے مبینہ بیان سے انکار کرچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان بیانات کو جس طرح شدت سے پیش کیا گیا تھا اگر اسی شدت سے اس پر مزید کام ہو جاتا تو شاید آج ہم اس پوزیشن پر ہوتے کہ کوئی نتیجہ نکال سکتے۔