لیاری گینگ وار کی وہ فلمی لڑائی جو بچوں سے شروع ہو کر پورے خاندان کو ختم کر گئی

پیر 22 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بظاہر ختم نظر آنے والے گینگز حقیقت میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ایک ایسی گینگ وار جو تھی تو لیاری گینگ وار کا حصہ لیکن مختلف انداز میں لڑی گئی، یہ ایسی لڑائی تھی جو سگھے رشتوں کے بیچ تھی،  بھائی نے بھائی کو چھوڑا، نہ ہی گھر کی عورتوں اور بچوں کو،  ایک ایسی لڑائی جو چھوٹوں سے شروع ہوتے ہوئے بڑوں تک پہنچ گئی اور پھر ہر گھر سے لاشیں اٹھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہ کہانی ہے لیاری کے مشہور منشیات فروش، گینگسٹر بادشاہ خان اور ان کے بھائیوں کے مابین شروع ہونے والی گینگ وار کی، سابق ایس پی فیاض خان جو لیاری میں اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں اس بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ کہانی 2008 میں اس وقت شروع ہوئی جب رحمان ڈکیت نے پیپلز امن کمیٹی کی بنیاد رکھی اور مختلف گینگسٹرز کو اپنی چھتری تلے جمع کیا، یوں ایک گینگ وجود میں آیا اور رحمان ڈکیت ہر جگہ خود اپنے مسلح افراد کے ساتھ موجود رہتا جبکہ مقابلے میں ارشد پپو اور غفار ذکری جیسے لوگ بھی موجود تھے۔

بادشاہ خان لیاری کے علاقے میں رہائش پذیر تھے

سابق ایس ایس پی کے مطابق مشہور منشیات فروش بادشاہ خان اس کے بھائی میرا خان، اللہ داد خان، حق داد خان اور ولی داد لیاری کے علاقے دریا آباد میں رہائش پذیرتھے، ان بھائیوں کے خلاف متعدد مقدمات درج تھے، اگر صرف بادشاہ خان کی بات کی جائے تو ان کے 7 بیٹے تھے اور ان سب پر مقدمات درج تھے۔

فیاض خان بتاتے ہیں کہ ان میں سے ایک حق داد خان جنہیں خان بھی کہا جاتا تھا پولیس کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل رہے، وہ پاکستان تو دور کی بات ہے، امریکا میں بھی منشیات کے کیس میں گرفتار ہو چکے تھے، خان کے 2 بیٹے یوسف خان اور سلطان خان تھے۔

فیاض خان نے بتایا کہ ان سب افراد جن کے نام لے رہا ہوں ان کو میں کئی کئی بار گرفتار کر چکا ہوں اور گرفتار ہونا ان کے لیے کوئی مسلئہ نہیں تھا۔

فیاض خان بتاتے ہیں کہ بادشاہ خان کے ایک چھوٹا بھائی اللہ داد خان بہت بڑا لڑاکا تھا، منشایات کے ساتھ ساتھ شہر میں جوئے کے اڈے چلاتا تھا جوا لگاتا تھا اور پولیس بھی اس کے ساتھ ملی بھگت میں شامل ہوتی تھی۔

اللہ داد نے 80 کی دہائی میں کلاشنکوف چلائی، تھانے پر حملہ کیا

اللہ داد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب 80 کی دہائی میں کلاشنکوف آئی تھی اور اسی دوران پولیس کے ساتھ ایک مقابلہ ہوا جس کے بعد اللہ داد غصے میں آیا اور بغدادی تھانے پر پہلی بار  کلاشنکوف سے فائرنگ کی اللہ داد کی دو بیویاں تھیں اور ان سے ہونے والے بچے سب غیر قانونی کاموں میں ملوث تھے۔

ولی داد سب سے بڑا منشیات فروش تھا

ولی داد خان جو منشیات میں پیتا اور پلاتا تھا یعنی ایک ایسا منشیات فروش جس کا اصول تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے کام بند نہیں ہونا چاہیے ان کی اولاد بھی ان کے کام کو آگے بڑھاتے رہے۔

ان بھائیوں کی اولادیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی گئیں اور دوریاں بھی اسی حساب سے بڑھتی گئیں،  بادشاہ خان اور میرا خان سگھے بھائی تھے جب کہ حق داد، اللہ داد اور ولی داد آپس میں سگھے بھائی تھے، یہ بھی ایک وجہ تھی کے سوتیلے ہونے کے باعث ان میں چپکلش چلا کرتی تھی۔

2008 میں رحمان ڈکیت نے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے گینگ وار کا آغاز کیا، اس نے پولیس اہلکاروں کی طرح ہر علاقے میں اپنے گینگسٹرز کو تعیانات کرنا شروع کر دیا، فیاض خان کے مطابق یہ اتنا آسان نہ تھا لیکن اس وقت کی حکومت کی مدد سے یہ کام آگے بڑھتا چلا گیا، اس وقت دریا آباد کا منشیات فروش بادشاہ خان کا ایک، ایک بیٹا غفور خان رحمان ڈکیت کے ساتھ شامل ہوا اور رحمان ڈکیت کے بہت قریب ہوگیا۔

غفور خان نے اپنے والد تک کو گرفتار کروایا

فیاض خان کے مطابق غفور خان بنیادی طور پر تو ایک منشیات فروش تھا لیکن مخبری بھی کرتا تھا ان کے مطابق کئی دفعہ ایسا دیکھا گیا کہ اس نے کئی لوگوں کو پکڑوایا یہاں تک کہ اس نے ایک بار اپنے والد کو بھی گرفتار کروا دیا۔

گینگ وار کی بنیاد

دریا آباد کی یہ چند گلیاں جو ان بھائیوں کی وجہ سے خوف کی علامت سمجھی جاتی رہیں، گرفتاریاں ہوتیں، لوگ مارے جاتے پر ان کا دھندا چلتا رہتا۔

سابق ایس پی کے مطابق پھر ایک دن دریا آباد میں ایک بیمار خاتون جو علاج کرانے ڈاکٹر کے پاس آئی تھی تو واپسی پر اسے لوٹ لیا گیا اور اس کے پیچھے ولی داد خان کے بیٹے راجہ کے گینگ کے لڑکوں کا ہاتھ تھا۔

اس عورت نے یہ واقعہ بادشاہ خان کے بیٹے غفور کو بتایا اور چھان بین کے بعد ان لڑکوں سے ریکوری کرائی لڑکوں کو رحمان ڈکیت کے پاس لے جایا گیا، جہاں انہوں نے مار پیٹ کے بعد اعتراف کیا کہ ہم راجہ کے لیے کام کرتے ہیں وہی ہمارا گینگ لیڈر ہے۔

 فیاض خان بتاتے ہیں کہ اس کے بعد رحمان ڈکیت جو لیاری کا ڈان تھا، اس نے ولی داد خان اور اس کے بیٹے راجہ کو طلب کیا، جس پر ولی داد خان رحمان ڈکیت کے سامنے آیا، فیاض خان بتاتے ہیں کہ ولی داد خان کسی سے نہیں ڈرتا تھا چاہے وہ پولیس ہو یا رحمان ڈکیت ہو۔

غفور ولی داد رحمان ڈکیت کے نرغے میں

یہی وجہ تھی کہ جب رحمان نے اسے بیٹا پیش کرنے کو کہا تو اس نے انکار کیا جس کے بعد ولی داد کو ٹارچر بھی کیا گیا، غفور ولی داد یعنی اپنے چچا کے گھر گیا اور کہا کہ راجہ کو پیش کردو ورنہ چچا کو ماردیا جائے گا غفور کو اندازہ تھا کہ اس کے ساتھ بھی اب یہی ہو گا لیکن وہ غفور کی ضمانت پر اپنے والد کو چھڑانے رحمان ڈکیت کے پاس پہنچ گیا اور پھر رحمان ڈکیت نے باپ بیٹے کو بے عزت کرکے مارپیٹ کر چھوڑ دیا۔

قسم کھاتے ہیں کہ غفور کو نہیں چھوڑیں گے

فیاض خان بتاتے ہیں کہ ولی داد اپنے بیٹے کے ہمراہ واپس گھر تو آئے لیکن نفرت کی بنیاد پڑھ چکی تھی، ولی کے 3 بیٹوں، راجہ، عباس اور ابراہیم نے قسم کھائی کے ہم چچا زاد بھائی غفور سے بدلہ لیں گے اور بدلہ لینے کے لیے سب سے پہلا انتظام اسلحہ کا کرنا تھا اور فیصلہ کیا کہ ہم غفور اور اس کے بھائیوں کا اسلحہ لوٹیں گے۔

ولی کے بیٹوں کی پہلی کامیابی

دریا آباد کی گلیوں میں غفور اپنی ٹیمیں بٹھائے رکھتا تھا اور ایک عمارت جس پر شبہ تھا کہ یہاں غفور کا اسلحہ ہوگا اس پر لڑکے کلاشنکوفوں کے ساتھ پہرا دیا کرتے تھے، اس علاقے میں کراچی اور پاکستان بھر سے مطلوب افراد پناہ لینے آیا کرتے تھے اور گینگ وار کے لیے اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔

ولی کے بیٹے اسی عمارت جہاں اسلحہ تھا گئے اور لڑکوں کو چکما دے کر وہاں سے اسلحہ نکالنے میں کامیاب ہو گئ، اس بات کی خبر غفور اور اس کے بھائیوں تک پہنچ گئی اور پھر ان کے والد بادشاہ خان نے اپنے بھائی ولی داد خان سے رابطہ کیا، اس کو بتایا کہ یہ اسلحہ رحمان ڈکیت کا ہے اور اسے واپس کرنا پڑے گا ورنہ لڑائی چھڑ جائے گی تم اور تمہارے بچے مارے جائیں گے، لیکن ولی داد خان کی عقل پر رحمان ڈکیت کے ہاتھوں اپنے اور بیٹے کی تذلیل کا بدلا لینے کی دھن سوار تھی۔

ولی داد خان کے گھر کا گھیراؤ

فیاض خان بتاتے ہیں کہ جب گینگ وار کی لڑائی چھڑ جاتی تو نہ جانے کہاں کہاں سے گینگ جھتوں کے حساب سے نکلنا شروع ہوجاتے تھے اور اس وقت 100 کے قریب گینگسٹرز نے ولی داد خان کے گھر کا گھیراؤ کر لیا تھا۔

فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا لیکن گھیراؤ کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ ولی خان کے گھر میں داخل ہوگئے، مقابلہ شروع ہوا ولی داد خان نے جب بھاگنا ضروری سمجھا تو وہ گھر کی چھت سے خود اپنے بیٹوں کے ہمراہ فائرنگ کرتے کرتے فرار ہوگیا۔

 لیکن گھر میں اس کا ایک بیٹا ابراہیم خان جو بیمار تھا اپنی ماں کے ساتھ موجود تھا اس بیٹے کو گھسیٹ کر گھر سے نکالا گیا اور بعد ازاں اسے آگ لگا کر میوہ شاہ قبرستان میں لاش پھینک دی گئی، دوسری جانب ولی خان کو فرار کرانے سے متعلق کہا گیا کہ اسے اس کے ایک بھائی حق داد خان نے خواتین کے برقعوں میں بیٹوں کے ہمراہ فرار کرایا، جب اس حوالے سے حق داد خان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی میرے بھتیجے ہیں تم بھی ہو، کوئی تمہیں بھی ایسے مار رہا ہوتا تو میں ایسے ہی مدد کرتا۔

یہ معاملہ رکا نہیں اب شکیل نے مشینری منگوائی اور ولی داد خان کی پوری عمارت کو زمین بوس کردیا، اب ولی داد خان بے گھر ہوچکا تھا اور اس کے بیٹوں راجہ پٹھان اور عباس نے ارشد پپو گروپ وقار ذکری سمیت دیگر گینگسٹرز کی مدد حاصل کی، لیکن راجا پٹھان کا اپنا گروپ بھی کسی سے کم نہیں تھا، یہ دس لڑکوں کا گروپ بلا کی مہارت رکھتا تھا۔

چچا زاد ہونے کے باعث دونوں گروپوں کو ایک دوسری کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ تھا معلومات تیزی سے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں پہنچ جاتی تھیں، فہیم اور شکیل کی کوشش تھی کی ولی اور اس کے بیٹوں کو ختم کرکے اس جھگڑے کا اختتام کیا جائے اور یہی سوچ ولی داد خان اور ان کے بیٹوں کی بھی تھی اور مسلسل ایک دوسرے پر حملے جاری رکھتے تھے۔

جب ولی خان داد نے ایک پلان بنایا

سابق پولیس آفیسر نے بتایا کہ غفور کا کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں ایک خاتون سے منشیات کے حوالے سے گہری دوستی اور تعلق تھا، ولی داد نے اپنے بھتیجے غفور کو دبوچنے کے لیے اس عورت کا استعمال کیا۔

جنوری 2010 کا واقعہ ہے کہ اس عورت نے غفور کو فون کرکے اپنے پاس بلدیہ ٹاؤن آنے کا کہا غفور جب اس عورت کے گھر پہنچا تو وہاں ولی داد اپنے بیٹوں راجا اور عباس کے ہمراہ پہلے سے ہی موجود تھے موقع دیکھتے ہیں انہوں نے غفور کو قتل کر دیا۔

غفور کے بعد بادشاہ خان کی باری

ابھی غفور کے قتل کو 30 دن بھی نہیں ہوئےتھے کہ اس کے والد بادشاہ خان پر حملہ ہوجاتا ہے، دریا آباد کی گلی نمبر 6 میں بادشاہ خان بیٹھا کرتا تھا، ولی داد خان بادشاہ خان کی بیٹی کو فون کرکے ڈرا دھمکا رہا تھا۔

جس پر بادشاہ خان کی بیٹی نے کہا کہ مجھے کیا بول رہے ہو، نیچے گلی میں میرا باپ بیٹھا ہوا ہے اسے تو تم کچھ بول نہیں سکتے، اسے بول کر تو دکھاؤ ولی خان نے جواب دیا کہ دیکھتے ہیں کہ وہ کب تک بیٹھتا ہے۔

فیاض خان بتاتے ہیں کہ اس کے 2 دن بعد بادشاہ خان اپنے بیٹے کے ہمراہ گلی میں بیٹھا تھا کہ ولی داد خان کے 2 بیٹوں نے حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں بادشاہ خان کو 6 گولیاں لگیں اور وہ انتقال کرگیا جبکہ اس کا بیٹا بھی بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گیا۔

رحمان ڈکیت کے بعد عزیر جان بلوچ لیاری کا نیا ڈان

لیاری گینگ وار کی کمان رحمان ڈکیت کے بعد عزیر بلوچ کے پاس آئی جو بادشاہ خان کے بیٹے عزیر بلوچ کے ساتھ کام کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ عزیر بلوچ نے اپنی گینگ کو بتا دیا تھا کہ بادشاہ خان کے بیٹوں کے ساتھ ملکر ولی داد خان اور ان کے بیٹوں کو تلاش کیا جائے اور جہاں ملیں انہیں مار دیا جائے، ولی داد کے بھائی اللہ داد کے بیٹے بھی ولی داد کے ساتھ تھے۔

جو جہاں نظر آئے مارا جائے

اب لیاری گینگ وار سر چڑھ کر بول رہی تھی جو جہاں نظر آتا مارا جاتا، اللہ داد جیل میں ہارٹ اٹیک سے مر چکا تھا، ولی داد خان بیٹوں کے ساتھ باہر تھا، شکیل، ولید، بادشاہ خان کے بیٹے غرض کے سب کے سب بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، کوئی نشے کی زیادتی سے مرا کسی کو رینجرز نے ، کسی کو پولیس نے  اور کسی کو خود چچازادوں نے مار ڈالا۔

حق داد خان کے 2 بیٹے

خان یعنی حقداد خان کے 2 بیٹے سلطان اور یوسف جن کا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور ان کی کوشش تھی کہ صلح ہو جائے لیکن خان کا بڑا بیٹا یوسف خود ایک گینگسٹر تھا، یہی وجہ تھی کہ بادشاہ خان کے بیٹوں کو کھٹکتا تھا جس کے باعث ان کی صلح کی کوششیں ناکام رہیں۔

‎2013 پولیس رینجرز آپریشن

بادشاہ کا فرزند شکیل اس دوران عزیر کے پاس رہنے لگا کیوں کہ آپریشن شروع ہوچکا تھا لیکن موقع ملتے ہی شکیل دبئی چلا گیا، اس دوران لیاری گینگ وار تتر بتر ہو گئی، ان میں سے کوئی دبئی چلا گیا، کوئی مارا گیا، کوئی پکڑا گیا جب کہ خود عزیر بلوچ اس وقت جیل میں موجود ہے۔

شکیل کی مہارت

اس دوران شکیل نے 2014 میں سوچا کہ سب کو پتا ہے میں دبئی میں ہوں،  کسی کو واپسی کا علم ہی نہیں ہوا کہ شکیل آیا اور آتے ہی حق داد خان کے گھر کے باہر اسے مارڈالا، ساتھ بیٹھے اس کے داماد کو بھی زخمی کر دیا جبکہ شکیل سلطان کو گھر کے دروازے اور یوسف کے پیچھے اس کے گھر کے اندر چلا گیااور اسے مارکر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا پھر وہ براستہ دبئی ملائشیا چلا گیا جہاں سے وہ آج بھی اپنا گینگ چلا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp