نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ بند ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں اضافے کا امکان پیدا ہو گیا ہے جبکہ مہنگے ایندھن پر انحصار بڑھنے کے علاوہ قومی خزانے کو سالانہ 55 ارب روپے کا براہ راست نقصان ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں
واپڈا نے اس سال 2 مئی سے 969 میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا، جس کی ابھی تک اصل وجہ اور حقیقت معلوم نہیں ہوسکی۔ اس منصوبے میں 51.5 کلومیٹر پر مشتمل ایک ٹنل بھی شامل ہے۔
ہیڈریس ٹنل میں خرابی کے باعث 969 میگاواٹ کا نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ مکمل صلاحیت حاصل کرنے کے محض ایک ماہ بعد ہی بند کرنا پڑا تھا۔
نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ 18 سے 24 ماہ تک بند رہنے کا امکان
واپڈا کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کم ازکم 18 سے 24 ماہ تک بند رہ سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ہیڈریس ٹنل ( ایچ آر ٹی) میں پریشر کی کمی اور سرنگ کے 17 کلومیٹر کے حصے میں امکانی طور پر شگاف کی وجہ سے پانی گرنے کا خدشہ ہے۔لیکن صحیح صورت حال ابھی تک واضح نہیں ہے۔
ٹنل کی خرابی دور کرنے کے لیے 6 ارب روپے درکار
واپڈا کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے ایک ریموٹ کنٹرولڈ گاڑی کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ خرابی کا پتہ لگاکراس کو مرمت کیا جاسکے۔ اہلکار کے مطابق اس پر تقریباً 6 ارب روپے لاگت آئے گی۔
ذرائع کے مطابق بند کیے جانے سے پہلے نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کبھی کبھار اپنی استعداد کار 969 میگاواٹ بجلی کے سطح سے تجاوز کرکے 1040 میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرتا رہا ہے۔
منصوبہ سالانہ 5 ارب یونٹس بجلی فراہم کرتا تھا
واپڈا کے مطابق یہ منصوبہ سالانہ 5 ارب یونٹس بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کرتا رہا ہے۔ ایک یونٹ کی قیمت لگ بھگ 10 روپے ہے۔
ذرائع کے مطابق این جے ایچ پی پی کے بند ہونے کا مطلب سالانہ 55 ارب روپے سے زیادہ کا براہ راست نقصان ہے۔
90 سے 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا
اس کے علاوہ اس کے فنکشنل نہ ہونے کی وجہ سے مہنگے ایندھن پر انحصار کرنا پڑے گا جس سے 90 سے 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑے گا۔
تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے 7 مئی کو این جے ایچ پی پی کا دورہ کیا اور کسی تیسرے فریق سے تحقیقات کرانے کا اعلان کیا جس کے بعد ایک سابق بیوروکریٹ کی سربراہی میں باضابطہ کمیٹی بھی قائم کی گئی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ہیڈریس ٹنل میں خرابی کی وجہ سے یہ منصوبہ کوئی 13 ماہ بند رہا اور5،3 کلومیٹر ہیڈ ریس ٹنل ( ٹی آر ٹی) کی مرمت پر بھی تقریباً 6 ارب روپے کی لاگت آئی تھی۔
پہلی خرابی کے دوران 37 ارب روپے کی بجلی کا نقصان ہوا
اس عرصے کے دوران تقریباً 37 ارب روپے کی بجلی کا نقصان اٹھانا پڑا تھا جس کے بعد واپڈا نے نقصانات کے ازالے کے لیے تقریباً 43 ارب روپے کے انشورنس کلیمز بھی جمع کروا رکھے ہیں۔
اپریل 2018 میں اس منصوبے نے کام شروع کیا،جس کے بعد سے اس منصوبے نے 19.829 بلین یونٹ بجلی پیدا کی جبکہ گزشتہ سال اگست میں ٹی آرٹی کی بحالی کے بعد بجلی کی پیداوار دوبارہ شروع ہوئی جس کے بعد سے اس منصوبے نے 1.54 بلین یونٹس بجلی پیدا کی۔
ابتدا میں واپڈا نے سنہ 1983 میں ’نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ‘ نیلم
جہلم کوہالہ ہائیڈل کمپلیکس کے نام سے شروع کیا تھا۔ ابتدا میں 500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے نیلم دریا کا رخ 20 کلومیٹر دریائے جہلم کے اوپر والے حصے کی طرف موڑ دیا جانا تھا۔
دوسرے مرحلے میں 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے دریائے نیلم اور جہلم دونوں کا رخ 10 کلومیٹر سرنگ کے ذریعے موڑ دیا جانا تھا۔
فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری
نیلم جہلم کوہالہ ہائیڈرل کمپلیکس کی فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری 1987 میں مکمل کی گئی تھی اور واپڈا نے سنہ 1989 میں 15 ارب کا پہلا پی سی ون، ای سی این ای سی سے منظور کرایا۔ لیکن فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔
بعد میں اکتوبر 1997 میں واپڈا کے منصوبے کے متبادل کے طور پر ایم ایس نارکنسلٹ نے تفصیلی انجینیئرنگ، ڈیزائننگ اور ٹینڈر دستاویزات تیار کیں۔ پھر یہ منصوبہ 500 میگا واٹ کے بجائے 969 میگاواٹ منصوبے میں بدل دیا گیا اور اس کا نام ’نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ‘ رکھا گیا۔
ای سی این ای سی نے 2002 میں 84 ارب روپے کا پی سی ون منظور کیا لیکن پھر بھی اس پر 2005 تک کام شروع نہ ہوسکا۔2005 میں تباہ کن زلزلے کے بعد منصوبے کی جگہ متاثر ہوئی جس کے بعد ڈیزائن میں تبدیلی کی ضرورت تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں 2007 میں زلزلے سے پہلے کے ڈیزائن کی بنیاد پر ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت اس منصوبے کو 2015 تک مکمل ہونا تھا۔
پروجیکٹ کنسلٹنٹس کے جوائنٹ وینچر پر مشتمل ہے۔2008 میں 5 بین الاقوامی اور قومی فرموں یعنی نیلم جہلم کنسلٹنٹس ( این جے سی) کو ڈیزائن کا جائزہ لینے کے لیے انگیج کیا گیا تاکہ وہ منصوبے کی تعمیراتی سرگرمیوں کی نگرانی کریں۔
اس مرحلے پر منصوبے کے لیے رقم اور بجلی دستیاب نہیں تھی جس کی وجہ سے منصوبے پر کام شروع نہ ہوسکا۔ وقت کے ضیاع کی وجہ سے سنہ 2010 میں روایتی ڈرل اور بلاسٹ کے بجائے ٹنل بورنگ مشینیں متعارف کروائی گئیں۔
2013 میں ایک بار پھر ای سی این ای سی نے 272 ارب روپے کا دوسرا نظرثانی پی سی ون منظور کیا اور منصوبے کی تکمیل کے لیے نومبر 2016 کا وقت مقرر کیا۔
سنہ 2015 میں 404 ارب روپے کا تیسرا نطرثانی پی سی ون منظور کیا گیا جو بعد میں 510 ارب روپے تک پہنچا اور یہ منصوبہ نومبر 2016 کے بجائے اپریل 2018 میں مکمل ہوا۔
منصوبہ 21 سال بعد مکمل ہوا
2017-2016 میں پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے پر ابتدائی تخمینے سے 389 ارب روپے سے زیادہ لگے اور یہ کہ یہ منصوبہ بہت پہلے مکمل ہونا چاہیے تھا لیکن اس منصوبے کو مکمل ہونے میں 21 سال لگے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 2002 کے پی سی ون کے مطابق منصوبے کی تکمیل میں 6 سال کی تاخیر کی وجہ سے لگ بھگ 2 کھرب 37 ارب کا نقصان ہوا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کی وجہ منصوبے کے لیے فنڈز کا انتظام نہ کرنا اور پی ایس ڈی پی سے 144 ارب 70 کروڑ روپے فنڈز جاری نہ ہونا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنسلٹنٹ کی تعیناتی کے بغیر کنڑیکٹر کو 90 ارب 90 کروڑ کا ٹھیکہ دیا گیا۔
48 ارب 80 کروڑ روپے کا نقصان
اس رپورٹ کے مطابق کارکردگی کی ضمانتیں حاصل نہ کرکے غیر ملکی قرضے کی معطلی ہوئی، جس کے باعث منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے 48 ارب 80 کروڑ کا نقصان ہوا۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چٹان پھٹنے کے واقعے کے بعد کنٹریکٹر کو بغیر کسی جواز کے 17 کروڑ 50 لاکھ روپے دیے گئے۔ اس واقعے کے باعث 7 ماہ کام رکا رہا جس کی وجہ سی 30 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
23 ارب روپے کی لاگت سے ٹی بی ایم استعمال کیے جانے پر بھی سوالات پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ اس کے استعمال کے باوجود کام وقت پرمکمل نہیں ہوا اور بغیر ٹینڈر کے یہ مشینیں خریدی گئیں اور اس کی اصل قیمت بھی پتہ نہیں ہے۔
اس منصوبے کے کنسلٹنٹس کی ناقص کارکردگی کے باعث 16 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنٹریکٹر نے وقت پر کام مکمل نہیں کیا جس کے نتیجے میں ان سے 10 ارب روپے کا نقصان وصول نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانی کے حقوق سے محروم ہونے کی وجہ سے سالانہ نقصان 5 ارب 15 کروڑ روپے ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 27 گاڑیوں کے غلط استعمال کی وجہ سے 38 کروڑ کا نقصان ہوا۔ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سی کنٹریکٹر کو رقم ادا کرنے میں تاخیر ہوئی جس کے بعد 11 کروڑ 48 لاکھ روپے معاوضہ دینا پڑا۔