چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت کی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی طبیعت ناسازی کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہیں تھیں۔ کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی، اور اب سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے کیس میں جواب جمع کرا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے جواب کے مطابق سنی اتحاد کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ کنول شوذب نے بھی مخصوص نشستوں کے کیس سے متعلق اضافی دستاویزات جمع کرا دی ہیں۔ کنول شوزب کی جانب سے اضافی دستاویزات کو عدالتی ریکارڈ پرلانے کی استدعا کی گئی ہے۔ گزشتہ سماعت پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے تھے۔
کیا عوام کو انتخابات کے سسٹم پر بھروسہ ہے؟ کیوں سچ نہیں بول سکتے؟ جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 86 ممبران نے کاغذات جمع کرواتے وقت کہا تھا کہ تحریک انصاف کے ہیں؟ کیا عوام کو انتخابات کے سسٹم پر بھروسہ ہے؟ کیوں سچ نہیں بول سکتے؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میرا دل کچھ اور کہہ رہا ہے لیکن مجھے دماغ کے ساتھ دلائل دینے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے کسی کو اختلاف نہیں، آزاد امیدواروں کو کوئی تو شناخت ملے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسا نہیں کہہ سکتےکہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعت کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں، میں بطور آزاد امیدوار ہی کیس کو دیکھ رہا، بطور پی ٹی آئی امیدوار نہیں۔
الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، عزت کا حقدار ہے، چیف جسٹس
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2018 میں ایک سیاسی جماعت مشکلات کا شکار تھی، 2024 میں بھی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ الیکشن کمیشن میں خرابی محسوس کرتے تو درخواست دائر کریں یا قوانین میں ترمیم کریں، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، عزت کا حقدار ہے، یہی مسئلہ ہے کہ پاکستان میں کچھ پھلنے پھولنے نہیں دیا جاتا، سپریم کورٹ بھی عزت کے ساتھ برتاؤ کی حقدار ہے۔
کنول شوزب عوام کی نمائندہ نہیں، چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ 3 سیٹیں جیت کر آپ کو 12 سیٹیں مل جائیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ قانون کے مطابق تناسب سے ہی خواتین اور غیر مسلم کی سٹییں ہوں گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجا صاحب آپ عدالت کے سامنے 2 موقف اپنا رہے ہیں، ایک موقف ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر انہوں نے غلط تشریح کرلی آپ تو غلط تشریح نہیں کرتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم ووٹرز کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کی غلطیوں کا حل ہم ڈھونڈیں؟ ہم نے الیکشن کمیشن کو منظور نہیں کیا، آپ نے کیا، غلطیاں تو کی ناں۔ کنول شوزب کوئی عوام کی نمائندہ نہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں عدالت سے معذرت خواہ ہوں
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت کے سامنے 14 مختلف فیصلے رکھوں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صرف درخواست گزار کی بات ہو رہی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صرف درخواست گزار کی انفرادی بات نہ کی جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دے رہے، اپ اپنے درخواست گزار کی بات کریں دوسروں کی بات کیسے کر رہے ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں عدالت سے معذرت خواہ ہوں۔
پی ٹی آئی نے انتخابات میں بہت غلط فیصلے کیے اور غلطیوں کو بار بار دہرایا، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو ماننے والی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں بہت غلط فیصلے کیے، پی ٹی آئی نے اپنی غلطیوں کو بار بار دہرایا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے درخواست گزار سنی اتحاد کونسل ہے، آپ کو پی ٹی آئی کا امیدوار سمجھا جائے یا سنی اتحاد کونسل کا؟ آپ پی ٹی آئی امیدوار کے وکیل ہیں سنی اتحاد کونسل کی بات نہیں کرسکتے۔
الیکشن کمیشن نے تمام سیٹیں مختلف جماعتوں میں بانٹ دیں لیکن سنی اتحاد کی روک دیں، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تمام سیٹیں مختلف جماعتوں میں بانٹ دیں لیکن سنی اتحاد کی روک دیں، آپ نے کہا تحریک انصاف نے بطور جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لیا، آپ اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں بالکل سمجھتا ہوں کہ ہمیں بالکل تحریک انصاف کو ہی دیکھنا چاہیے تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آزادامیدوار ایک جماعت میں دو 3 ماہ بعد شامل ہوتے تو کیا جماعت کو مخصوص نشستیں ملنے کی اہلیت ہوگی؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ اسی وجہ سے 3 دنوں میں شامل ہونے کا قانون ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بہت ہی عجیب سا قانون ہے۔
86 ارکان اگر کسی بھی جماعت میں شامل نہ ہوں تو پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوگا؟ چیف جسٹس
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کیا معلوم آزاد امیدوار ایک ایسی جماعت سے منسلک ہونا بہتر سمجھتے ہوں جس کی کوئی سیٹ نہ ہو۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 86 امیدواروں کو پی ٹی آئی ووٹرز نے ووٹ دیا۔86 امیدواروں کو کیوں لگا کہ ایک ہی جماعت سے منسلک ہونا ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ قانون کے مطابق آزاد امیدواروں کو حق تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 86 ارکان اگر کسی بھی جماعت میں شامل نہ ہوں تو پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوگا؟ آزاد امیدوار اگر آزاد رہنا چاہیں تو ان کی سیٹیں خالی نہیں رکھی جاتیں۔
عوام نے سیاسی جماعتوں کے منشور نہیں پڑھے ہوئے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 25 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ عوام نے سیاسی جماعتوں کے منشور نہیں پڑھے ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مفروضہ لے لیتے ہیں کہ ایک ارب پتی نے سیاسی جماعت خرید لی، ہوتا ہے ناں ایسے، کوئی بزنس مین سیاسی جماعت خرید کر آزاد امیدواروں کو اپنی طرف کرلے تو کیا پاکستان میں ایسا دکھانا چاہتے ہیں؟
عوام کو معلوم ہو سنی اتحاد ہے کون؟ کبھی حکومت میں آئی نہیں، چیف جسٹس
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یا آپ کہیں کہ آپ سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے، اگر آزاد امیدوار تھے تو ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس نے کوئی سیٹ جیتی ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے ہر لفظ کی ایک اہمیت ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جو آزاد امیدوار شامل ہوں گے، وہ جیتی ہوئی سیٹیں تصور ہوں گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون امیدوار ہیں، کون سی سیاسی جماعتیں ہیں، عوام کو معلوم ہو سنی اتحاد ہے کون؟ کبھی حکومت میں آئی نہیں۔
ہر سیاسی جماعت کا منشور ہے، اپنا نہیں بلکہ ملک کے لیے اچھا کیا ہوتا، چیف جسٹس
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آئین کا مقصد پارلیمنٹ کو کسی سیاسی جماعت سے نمائندگی کروانا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یعنی آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہیے اور ایسی بات سمجھ بھی آتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ دیا جاتا ہے، دیکھنا ہوگا کہ آزاد امیدواروں کا کسی جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہے یا نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 3 روز میں آزاد امیدواروں نے کسی جماعت میں شامل ہونا ہے لیکن کچھ ہوگا تو شامل ہوں گے ناں۔ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ آزاد امیدوار 3 روز بعد بھی شامل ہوسکتے، آزاد امیدواروں کی مرضی ہے۔ سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ آزاد امیدوار کوئی سیٹ نہ جیتنے والی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی لینگویج بہت اہمیت کی حامل ہوتی، تشریح کے لیے لینگویج کو دیکھنا ہے، آپ نے کیا غلط جماعت منتخب کی؟ آپ کو تحریکِ انصاف میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ ہر سیاسی جماعت کا مینی فیسٹو ہوتاہے۔ اپنا نہیں بلکہ ملک کے لیے اچھا کیا ہوتا، وہ سوچنا ہے۔
دوران مدت آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی کو جوائن کر سکتا ہے، سلمان اکرم راجا
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل جاری رکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کہنا کہ 86 ممبران کی کوئی حیثیت نہیں اسمبلی کو ڈس بیلنس بناتا ہے۔ دوران مدت آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی کو جوائن کر سکتا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں 40 منٹ کا وقفہ کردیا
جسٹس منیب اختر نے سلمان اکرم راجا سے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہیں، فیصل صدیقی سے پوچھ لیتے ہیں کس کو مخصوص نشستیں ملنی چاہیں۔ فیصل صدیقی نے سلمان اکرم راجا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت میں 40 منٹ کا وقفہ کردیا۔
کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار عوامی منشا کی بات کر رہے ہیں پھر تو سیدھا سب نشستوں پر الیکشن ہونا چاہیے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ عوامی منشا کی ہی بات کریں لوگوں نے ووٹ پی ٹی آئی کو دیا تھا، کیا ووٹرز کو پتا تھا آپ سنی اتحاد کونسل میں جائیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجا صاحب سچ بول دیں، مجھے نہیں سمجھ ہر کوئی سچ کو دبانا کیوں چاہتا ہے؟ 2 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کیا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی۔ ایک عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کا خمیازہ عوام کیوں بھگتیں۔ عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کو درست کیا جانا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ خود غلط تشریح کرتے رہے ہیں تو ہم کیا کریں؟ میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرتے۔ کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔
فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا تو تب بھی عوام سے حق چھینا گیا، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل دائر کیوں نہیں کی؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہاں عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا، فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا تو تب بھی عوام سے حق چھینا گیا، مکمل سچ کوئی نہیں بولتا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سیاسی بیانات میں نہیں جاؤں گا آئین و قانون پر دلائل دوں گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی غلط تشریح کرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پاکستان تحریک انصاف کے بجائے سنی اتحاد کونسل کا انتخاب کیوں کیا؟ میرے خیال سے اگر آپ پی ٹی آئی کا انتخاب کرتے تو آپ کا کیس بہت مضبوط ہوتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی غلط تشریح کرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا الیکشن کمیشن بھی گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار سپریم کورٹ کا نہ کہیں رجسٹرار کے پاس جوڈیشل پاور نہیں۔
جب آئین واضح ہو تو تشریح کی ضرورت نہیں، عام کتاب ہے کوئی بھی سمجھ سکتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے غلط ایڈوائس دی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے شاید مگر یہ فیصلہ تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو یہ مشورہ دینے والے پر کیس کریں، آئین عوام اور منتخب نمائندگان کے لیے بنایا گیا ہے۔ جب آئین واضح ہو تو تشریح کی ضرورت نہیں، عام کتاب ہے کوئی بھی سمجھ سکتا ہے۔ آئین کی اہمیت ہے، کوئی بھی آ جاتا ہے، جو چیز آئین میں واضح ہے اس پر عمل کریں۔
مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا، کل کوئی کہے گا مجبوری ہے سگنل پر رک نہیں سکتا: چیف جسٹس
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سینئر وکلا پارٹی میں تھے اور کہا گیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا کوئی حرج نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے ذاتی طور پر اس فیصلے کو تسلیم کیا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ کہا جا رہا تھا پی ٹی آئی کالعدم ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی میں کوئی وکیل نہ ہوتا، پہلا الیکشن لڑ رہی ہوتی تو ہم یہ مفروضے سنتے، مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا، کل کوئی کہے گا مجبوری ہے سگنل پر رک نہیں سکتا۔
کیا مجبوری میں تمام قوانین و اصول توڑ دیے جاتے ہیں چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجا سے مکالمہ
سلمان اکرم راجا نے جسٹس اطہر من اللہ کو بتایا کہ ہمیں بتایا گیا کہ انتخابی نشان واپس ہو گیا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، پی ٹی آئی امیدواروں نے مجبوری میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ مجبوری ہو تو کیا آئین و قانون کو نہیں مانا جاتا، کیا مجبوری میں تمام قوانین و اصول توڑ دیے جاتے ہیں چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجا سے مکالمہ۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سینئر وکلا نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت میں کوئی حرج نہیں۔
یہ بتائیں کہ 86 امیدوار ایک فرد والی جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ جسٹس اطہر من اللہ
چیف جسٹس نے پھر کہا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیا تباہ کر رہے ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا، سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں؟ میرے دلائل آئینی تشریح والے معاملے پر فیصل صدیقی سے مختلف ہیں، میری رائے میں کسی پروگریسو تشریح کی ضرورت نہیں۔ آئین کی لیگوئیج ہی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا کہتی ہے پارلیمانی نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی تو اس وقت موجود نہیں اس لئے ایسا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بتائیں کہ 86 امیدوار ایک فرد والی جماعت میں کیوں شامل ہوئے، کیا وجہ تھی کہ پی ٹی آئی کے امیدوار دوسری جماعت میں گئے؟
تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائے عدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کرسکتی؟ جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا چیمبر اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائے عدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کر سکتی؟ عدالت خود کو اپیلوں تک کیوں محدود کر رہی ہے؟ 184/3 کا نوٹس لینے میں کیا امر مانع ہے؟ جسٹس یحیحی آفریدی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اگر بیان دیدے کہ کنول شوزب ان کی امیدوار ہوں گی تو درخواست سن سکتے ہیں؟
8 فروری الیکشن کیس زیر التوا ہے، ہر غیر متعلقہ کیس پر سو موٹو لیا جاتا رہا یہ تو پرفیکٹ کیس تھا: جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے الیکشن سے متعلق بھی کیس زیر التوا ہے۔ ہر غیر متعلقہ کیس پر سو موٹو لیا جاتا رہا یہ تو پرفیکٹ کیس تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں، میری رائے میں پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کو آکر کہنا چاہیے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ایسے حالات تھے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟ کیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ ماننے والے آرڈر کیخلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سنی جانی چاہیے؟ چیمبر اپیل دائر نہ کرنے سے اہم ترین معاملہ غیر مؤثر ہوگیا؟
چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجا سے مکالمہ، آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سب کے درمیان پی ٹی آئی کہاں ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہی ہیں۔ جسٹس میاں محمدعلی مظہر نے کہا کہ آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کیا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلمان راجا صاحب آپ اس عدالت کے سامنے ہیں جو بنیادی حقوق کی محافظ ہے۔
کنول شوزب نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، وکیل سلمان اکرم راجا
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی لسٹ میں شامل ہیں؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ہم سے سنی اتحاد کونسل نے لسٹ لی ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو ایسے نہیں سن سکتے کیونکہ مخصوص نشست کے لیے آپ نہ پی ٹی آئی سے ہیں یا سنی اتحاد کونسل سے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے بنیادی حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں کہ کنول شوزب مخصوص نشست کے لیے امیدوار ہیں۔ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی کی لسٹ میں ہیں مگر سنی اتحاد کونسل نے لسٹ لی ہی نہیں، میری موکلہ نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔
پی ٹی آئی کا تو کیس ہی نہیں ہم تو سنی اتحاد کونسل کا کیس سن رہے، چیف جسٹس
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر ہیں، الیکشن ایکٹ کیمطابق کوئی شخص دو جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا۔ کنول شوزب کو پہلے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنول شوزب کیا اکیلی تھیں جو سنی اتحاد کونسل میں نہیں گئیں؟ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ کنول شوزب عام انتخابات میں منتخب نہیں ہوئیں، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو ملنے پر انہیں منتخب ہونا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اوکے، تو یہ متاثرہ فریق ہیں۔ کنول شوزب کس کی طرف سے ہیں؟ پی ٹی آئی کا تو کیس ہی نہیں ہم تو سنی اتحاد کونسل کا کیس سن رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ خلاف آئین ہے، وکیل اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی
وکیل اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد جان نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ خلاف آئین ہے۔ فیصل صدیقی اپیل کے حوالے سے تفصیل سے دلائل دے چکے ہیں۔ ہماری 3 درخواستیں تھیں عدالت چاہے تو معاونت کے لیے تیار ہوں، مزید معاونت بھی کردوں گا، وکیل اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی اسدجان نے دلائل مکمل کرلیے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کرلیے
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کے آئین پر جو اعتراض ہمارے سامنے رکھا اس پر کبھی آپ کو نوٹس کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کبھی سنی اتحاد کونسل کو نوٹس نہیں کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سنی اتحاد کونسل اب تک رجسٹرڈ جماعت ہے، الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی تھی کہ وہ ہاؤس مکمل کرتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی بات کریں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پھر حقیقت بتائیں آئین کے تحت کب یہ ملک چلا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وقت آگیا ہے کہ اب آئین کے مطابق ہی ملک چلے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ہم یہاں بیٹھے کیوں ہیں؟ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل مکمل کر لیے۔
کیا کسی جگہ ووٹرز نے اعتراض کیا کہ آپ لوگوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کیوں کی؟ جسٹس حسن اظہر رضوی
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ جنہوں نے آپ کو جوائن کیا کیا ان میں کوئی غیر مسلم ہے، یہ اہم سوال ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں، دیکھنا پڑےگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا انضمام ہوجاتا پھر بھی معاملہ حل ہوتا مگر وہ بھی نہیں ہوا۔ کیا کسی جگہ ووٹرز نے اعتراض کیا کہ آپ لوگوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کیوں کی؟ کسی نے آرٹیکل لکھا ہو یا کوئی پریس کانفرنس یا احتجاج کیا ہو؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ہمارے خلاف احتجاج اور اعتراض صرف الیکشن کمیشن نے کیا۔
دفاع نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل نے بڑی غلطیاں کیں، فیصل صدیقی
فیصل صدیقی نے کہا کہ ہر آزاد ایم این اے، ایم پی اے کا حق ہے کہ جس جماعت میں شامل ہو، میں دفاع نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل نے بڑی غلطیاں کیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر سنی اتحاد اور تحریک انصاف ایک ہو جاتیں تو معاملہ حل ہوجاتا لیکن وہ بھی نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو 80 سے زائد سیٹیں ملیں، آپ کو فائدہ ہوا، آپ سے کچھ چھینا نہیں گیا، عدالت سمجھتی سیاسی جماعت کی ممبر شپ اہمیت کی حامل ہوتی۔
سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جن کی لڑائی لڑ رہے ہیں وہ امیدوار سنی اتحاد کے ہیں یا تحریک انصاف کے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ فی الحال تو سنی اتحاد کے ساتھ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال کی بات نہ کریں، آپ کے ساتھ ہیں یا نہیں؟ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیمطابق سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟ قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں۔ کیا آپ کی پارٹی کا آئین، آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟ بطور آفیسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی کے جملے پر چیف جسٹس مسکرا دیے
فیصل صدیقی نے بتایا کہ سنی اتحاد سیاسی جماعت ہے یا نہیں، اس پر سوال اٹھا ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن نے اقرار کیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے۔ اگر سپریم کورٹ اپیل منظور کرتی تو پھر 3 روز کے اندر والی اسٹیج سے نشستوں کے حوالے سے کام شروع ہوگا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ لیکن میں پہلے چیف جسٹس کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا میرے سوال کا جواب دینے کے لیے اجازت لینا ہوگی؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سر ایسے نہ کریں، ہنس کر میرا قتل نہ کریں۔ اس جملے پر چیف جسٹس مسکرا دیے۔
اگر آپ سیاسی جماعت نہیں تو خالی نشستیں کہاں جائیں گی؟ جسٹس منصورعلی شاہ
فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو دیکھنا ہے کہ خالی نشستوں کو کیسے فِل کرنا ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر آپ سیاسی جماعت نہیں تو خالی نشستیں کہاں جائیں گی؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پھر سپریم کورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ آزاد امیدوار کون ہیں؟ جسٹس منصورعلی شاہ نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ اگر 10 لوگ کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوتے تو کیا ان کی سیٹیں خالی رہ جائیں گی؟
جو سیٹیں جیتیں انہی کے حساب سے مخصوص نشستیں ملیں گی، جسٹس منصورعلی شاہ
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ نے بتایا کہ آپ سیاسی جماعت ہیں، لسٹ کو ہم بعد میں دیکھ لیتے ہیں۔ اگر سنی اتحاد سیاسی جماعت نہیں تو کیا آزاد امیدوار 2 سیاسی جماعتوں کو ملیں گے یا صرف اپنے امیدوار ہی ملیں گے؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سیاسی جماعت کو جیتی گئی سیٹوں سے زیادہ نہیں مل سکتیں، میرا نکتہ ہے کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ جو سیٹیں جیتیں انہی کے حساب سے مخصوص نشستیں ملیں گی۔
سیٹیں الیکشن کے بعد ملتی ہیں تو الیکشن کمیشن نیا شیڈول جاری کرے، فیصل صدیقی
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ سیکشن سے ایک لفظ لے کر اپنے کیس کو نہیں چلا سکتے۔ آپ دکھائیں کہ سنی اتحاد نے پارٹی لسٹ دی، کیا لسٹ دی؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ جی سنی اتحاد کونسل سے لسٹ دی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلی لسٹ الیکشن کمیشن کو مخصوص وقت کے اندر دینا ہوتی ہے، کیا آپ نے دی؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مخصوص وقت میں الیکشن کمیشن کو لسٹ نہیں دی لیکن شیڈول کا مسئلہ ہے سیکشن کا نہیں، سیٹیں الیکشن کے بعد ملتی ہیں تو الیکشن کمیشن نیا شیڈول جاری کرے۔
مخصوص نشستیں کیس: وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشتوں سے متعلق کیس کی سماعت وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل جاری رکھے۔
مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا آئین زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں۔ مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے کہ جو کچھ 2018 میں ہوا وہی اب ہوا۔ جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انہیں اٹھا لیا گیا۔ یہ باتیں سب کے علم میں ہیں۔ کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کرلے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔
پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے؟ کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں۔ سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی۔
پی ٹی آئی کے صدر نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟ چیف جسٹس
فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔ پی ٹی آئی کے صدر تھے انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟
سیاسی باتیں نہ کریں، صرف آئین پر رہیں: چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ
فیصل صدیقی نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کے لیے کوئی چوائس نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، صرف آئین پر رہیں۔
ہم یہ نہیں سنیں گے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے، ہم یہ نہیں سنیں گے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی۔ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں۔ آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراؤ میں آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا۔ آئین پر عمل نہ کرکے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے۔ ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔ ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدار الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے؟
پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، چیف جسٹس
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی، لیکن ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انھوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، یہ تو آپ کے اپنے دلائل کے خلاف ہے۔
ایسی سیاسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ کر آئی ہیں ان کو عوام نے ووٹ دیا ہے۔ لیکن ایسی سیاسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟
فیصل صدیقی کی جانب سے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 106 کا حوالہ
فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئینی شقوں کے کچھ بنیادی پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست پر ہوں گی۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہر جماعت کو اپنی جنرل نشستوں کے حساب سے ہی یہ نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اعلیٰ عدلیہ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کو نیچرل حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا ہے۔ آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا ہے۔
سلمان اکرام راجا نے کہاکہ جب تحریک انصاف بطور آزاد حیثیت سے انتخاب لڑی تو حامد رضا نے بھی آزاد امیدوار الیکشن لڑا۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا حامد رضا اپنی ہی جماعت سے الیکشن نہیں لڑے؟، جس پر سلمان اکرام راجا نے کہاکہ حامدرضا بطور تحریک انصاف امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ انتخابات کے شیڈول کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے، بتایا جائے اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی کون ہے؟، جس کے جواب میں سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ فی الحال گوہرعلی خان چیئرمین تحریک انصاف ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہاکہ گوہرعلی خان نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔
کچھ تو آئین کی دھجیاں نہ اڑائیں، چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا سلمان اکرم راجا سے مکالمہ
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ کچھ تو آئین کی دھجیاں نہ اڑائیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ آپ متاثرہ جماعت نہیں، اگر متاثرہ جماعت ہوتی تو سامنے آتی۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہاکہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ صاف شفاف انتخابات کروائے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آپ 86 لوگوں کی بات نہ کریں، آپ ایک درخواست گزار ہیں، 86 درخواست گزار نہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ایم کیو ایم آپ کی حکومت کا حصہ تھی؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ یہ سیاسی سوال ہے، ہم آئین کی تشریح چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل ایم کیو ایم آپ کے ساتھ تھی، آج نہیں، کل سنی اتحاد نے بھی ایسا کیا تو ہمارے پاس آئیں گے؟
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ حامدرضا کے کاغذات نامزدگی کل ساتھ لے کر آئیں اور بعد ازاں سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔