فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔
مزید پڑھیں
فوجی عدالتوں میں مقدمات کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کی جانب سے دائر کی گئی۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ کیس کو یکم جولائی سے شروع ہونے والے ہفتے میں مقرر کیا جائے۔
لطیف کھوسہ نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ نے مقدمہ کو جنوری 2024ء کے تیسرے ہفتے میں مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود کیس آج تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوسکا، فوجی عدالتوں میں زیرحراست ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ سپریم کورٹ کی وجہ سے رک چکا ہے، 13 دسمبر سے اب تک کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سینیئر وکیل اعتزاز احسن نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی تھی۔ اعتزاز احسن نے بھی اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ فوج کے زیر حراست افراد کے مقدمات کے فیصلے سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہونے کی وجہ سے نہیں ہورہے، متعدد افراد جرم ثابت ہوئے بغیر فوج کی حراست میں ہیں، کیس 14 مئی سے شروع ہونے والے ہفتے میں سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
واضح رہے کہ 24 اپریل کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیل ججز کمیٹی کو واپس بھجوا دی تھی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے اپنے 13 دسمبر 2023 کے حکم نامے میں ترمیم کی تھی جس کے تحت 23 اکتوبر کے فیصلے کو معطل کردیا گیا تھا جس کے مطابق 9 مئی کے تشدد میں ملوث شہریوں کے خلاف فوجی ٹرائل کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
ترمیم شدہ حکم نامے کے مطابق، ایک ہدایت جاری کی گئی تھی کہ فوجی عدالتیں ٹرائل شروع کرسکتی ہیں لیکن وہ حکومت کی طرف سے قائم کردہ انٹرا کورٹ اپیلوں کے زیرسماعت ہونے تک کسی ملزم کو سزا یا بری نہیں کریں گی۔
8 اپریل 2024 کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار 20 افراد کو رہا کردیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی سزا کا بڑا حصہ کاٹنے کے بعد عیدالفطر اپنے اہل خانہ کے ساتھ منا سکیں، ان کی سزا آرمی چیف نے معاف کی تھی۔