سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ آمنے سامنے آگئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ بعد ازاں مزید سماعت 27 جون تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
مزید پڑھیں
بات جسٹس منیب اختر کے سوال سے شروع ہوئی جب انہوں نے پوچھا کہ کیا ان آزاد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹس لف کیے تھے، اس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ سپریم کورٹ فیصلے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان نہیں دیا، تو چیف جسٹس نے فوری مداخلت کرتے ہوئے درشت لہجے میں کہاکہ وہ فیصلہ انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق تھا نہ کہ انتخابی نشان سے متعلق اور اس فیصلے کے خلاف اگر نظر ثانی زیر التوا ہے تو یہ بات وہاں ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سختی سے ہدایت کی کہ سپریم کورٹ فیصلے پر دلائل نہ دیے جائیں۔
اس سے قبل آج جب سماعت شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے پوچھا کہ عدالت نے کچھ سوالات پوچھے، ابھی دلائل دوں یا جواب الجواب میں؟ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چھوٹے دلائل ہیں تو ابھی دے دیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں چیئرمین کی سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے۔ سنی اتحاد کا نشان نہ ملنے پر چیئرمین نے بطور آزاد امیدوار انتخابات لڑے۔ جمیعت علمائے ف میں بھی اقلیتیوں کو ممبر شپ نہیں دی جاتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ہوا میں بات کی، ایسے بیان نہیں دے سکتے، آپ دستاویزات دیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں دستاویزات بھی دوں گا، الیکشن کمیشن بھی کنفرم کردے گا۔ الیکشن کمیشن نے چیئرمین سنی اتحاد کونسل حامد رضا کے کاغذات نامزدگی عدالت میں پیش کر دیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ حامد رضا کے کاغذات نامزدگی کی کاپیاں کروا کر تمام ججز کو دی جائیں۔
کسی بھی سیاسی جماعت کو کم سے کم ایک سیٹ جیتنا لازم ہے، سکندر بشیر
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعت تو بہرحال جماعت ہی رہے گی۔ سکندر بشیر نے کہا کہ ہاں وہ جماعت ضرور رہے گی مگر آرٹیکل 51 والے مقاصد کے لیے وہ بطور جماعت نہیں ہوگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے لیکن ایک بھی سیٹ نہ جیتے تو کیا سیاسی جماعت مانی جائےگی؟ سکندر بشیر نے بتایا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو کم سے کم ایک سیٹ جیتنا لازم ہے۔ سیاسی جماعت نے ایک بھی سیٹ نہ جیتی ہو اور 200 آزاد امیدوار ساتھ ہوں تو اسے صفر مخصوص نشستیں ملیں گی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یعنی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے۔
صرف آزاد امیدواروں پر مشتمل جماعت آرٹیکل 51 کی تعریف والی جماعت نہیں ہو سکتی، وکیل الیکشن کمیشن
سکندر بشیر نے کہا کہ سو فیصد آزاد امیدواروں پر مبنی سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ کے تحت سیاسی جماعت نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سکندر بشیر سے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعت ایک آدھ سیٹ جیتی ہو؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا کہ آپ کے مطابق ان لسٹڈ پارٹی ڈی لسٹ ہو جائےگی، الیکشن ایکٹ میں سیاسی جماعت کو ڈی لسٹ کرنے کا بھی طریقہ ہے۔ سکندر بشیر نے کہا کہ پہلا نکتہ یہ ہےآرٹیکل 51 کے تحت سیاسی جماعت کی ایک اسپیشل تعریف ہوگی، آئین کی تشریح کا اصول سادہ قانون کی تشریح سے مختلف ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے صرف آزاد امیدواروں پر مشتمل جماعت آرٹیکل 51 کی تعریف والی جماعت نہیں ہو سکتی۔
200 آزاد + 0 سیاسی جماعت = 0
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے عدالت کو اپنا مؤقف سمجھانے کے لیے ریاضی کی مساوات کا طریقہ اپنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی جماعت بننے کے لیے کسی سیاسی جماعت کی کم از کم ایک نشست ہونی چاہیے، اگر وہ سیاسی جماعت ایک نشست بھی نہیں جیتتی، اس کا اسکور 0 ہے، اور اس میں 200 آزاد اراکین شامل ہو جاتے ہیں تو زیرو جمع 200 برابر زیرو ہوں گے۔ اس سیاسی جماعت کو کوئی مخصوص نشست نہیں ملے گی۔ جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو پٹیشنرز کی سائیڈ سے مسکرانے کی آواز آئی جس پر سکندر بشیر بولے مائی لارڈ میں ایک انتہائی سنجیدہ دلیل پیش کر رہا ہوں اور میری دائیں جانب سے ہنسنے کی آوازیں آرہی ہیں۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا کو دستاویزات جمع کروانے سے روک دیا
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا کو دستاویزات جمع کروانے سے روک دیا، سلمان اکرام راجا کا کہنا تھا کہ میں کنول شوزب سے متعلق چند دستاویزات جمع کروانا چاہتاہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہیں لیں گے دستاویزات، ہم کیسز نہیں بناتے۔
سماعت میں 3 بجے تک وقفہ کرتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم ججز کا کھانا ہے وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے، لگتا ہے آج یہ کیس لمبا چلے گا ڈنر یہیں ہوگا۔ کیس کی سماعت میں تین بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔
کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرےگا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا قانون آپ کو اختیار دیتا ہے کہ آپ طے کریں کوئی آزاد امیدوار ہے یا پارٹی کا؟ کیا الیکشن کمیشن فیصلہ کرےگا کہ امیدوار کی کس سیاسی جماعت سے وابستگی ہے؟ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ فارم 66 مخصوص نشستوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی گئی لسٹ ہوتی، جنرل اور مخصوص نشستوں کی لسٹ کا طریقہ کار بالکل ایک طرح کا ہے۔ کاغذات نامزدگی پہلی اسٹیج ہوتی ہے۔ خواتین، اقلیتوں کی سیٹوں کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی جنرل نشستوں کی ہے۔ خواتین کی مخصوص نشست پر وزیراعظم کے لیے بھی امیدوار ہوسکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ایسا ممکن ہو سکتا کہ ایک ہی حلقے سے ایک ہی پارٹی کے 2 امیدوار ہوں؟ وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ ایسا ممکن نہیں، پارٹی سربراہ اپنے آئین کے مطابق پارٹی ٹکٹ دیتا ہے۔
مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایک سیاسی جماعت جو بہت مشہور ہے لیکن انتخابات سے بائیکاٹ کرلیتی ہے، کیا عوام کی سپورٹ کے باوجود بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟ مخصوص نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوئے تو الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر روسٹرم پر آئے اور دلائل شروع کرتے ہوئے بتایا کہ انتخابات کا شیڈول ایک اہم دستاویز ہوتا جس میں مخصوص اور جنرل سیٹیں شامل ہوتیں، جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کے لیے ایک تاریخ دی جاتی۔ مخصوص نشستوں کابھی نوٹیفکیشن ہوتا ہے، فارم 33 جنرل اور مخصوص نشستوں کے لیے ہوتا ہے۔ ریٹرننگ افسران مخصوص، جنرل نشستوں کے فارم 33 کی اسکروٹنی کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے سنی اتحاد نے لسٹ دی نہ انتخابات میں حصہ لیا، مخدوم علی خان
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس عدالت کے پاس آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار ہے، اس عدالت کے پاس آرٹیکل 184 تین کا اختیار بھی موجود ہے، جو آج ہو رہا ہے شاید کل پھر اس عدالت کو اس پر پچھتاوے کا اظہار کرنا پڑے گا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے سنی اتحاد نے لسٹ دی نہ انتخابات میں حصہ لیا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے۔
جیسا 2018 میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہو رہا ہے، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اقلیتی، خواتین کو ضرور پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے۔ ماضی کے انتخابات میں ن لیگ، پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہی لیکن سپریم کورٹ مدد کے لیے سامنے نہیں آئی۔ جیسا 2018 میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہو رہا ہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی۔ ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔
اگر 2 سیاسی جماعتیں ہیں تو انہیں میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی، جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے انتخابات کا رزلٹ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ 2 سیاسی جماعتیں ہیں تو انہیں میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں بانٹنے کا طریقہ کار ہر انتخابات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، آئین کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ اقلیتی بھی آپ کی سیاسی جماعت میں آکر بیٹھیں۔ اگر سیاسی حریف نہیں پسند تو سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ دونوں حریف ساتھ بیٹھیں گے۔
تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا صرف یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا انتخابات میں خواتین، اقلیتوں کی نمایندگی پر بات کرنا ضروری ہے۔ اقلیتی، خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے۔ تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر 2 سیاسی جماعت ہیں تو انہی میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کیا مخصوص نشستوں کی بنیاد پر عام انتخابات کے آؤٹ کم کو مکمل تبدیل کر دیا جائے؟ جو جماعتیں اکثریت نہیں لے سکیں انہیں مخصوص نشستوں سے اکثریتی کر دیا جائے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ منطق میں درست ہے یا نہیں؟ ہم نے یہ دیکھنا ہے آئین میں کیا ہے۔
ایک جنٹلمین نے کہہ دیا تھا آئین کیا ہے کاغذ کا ٹکڑا چاہوں تو پھاڑ دوں، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں 2 طریقہ کار سے سیٹیں بانٹی گئی ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزاد امیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا ہے جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کیمطابق عوام کی منشا پر ہی عمل ہونا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جنٹلمین نے کہہ دیا تھا آئین کیا ہے کاغذ کا ٹکڑا چاہوں تو پھاڑ دوں۔
اگر سیاسی جماعت انتخابات کے بعد لسٹ دے تو غیر جمہوری ہو جائےگی، مخدوم علی خان
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائےگی؟ انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف مخصوص سیٹ جیت سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ مہیا نہیں کرتی تو اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ نہیں دی اور انتخابات کے بعد دے تو مزید غیر جمہوری ہو جائےگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ سیٹیں جیتیں۔ مجھے مسئلہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی۔ قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں۔ آپ کہہ رہے اگر سنی اتحاد سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہوگئیں۔
اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئےگا، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے مینی فیسٹو میں اقلیتیں شامل نہیں تو اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی جائےگی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے۔ اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئےگا، خریدنا تو ضروری ہے ناں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواست گزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیر التوا ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ درخواستیں کیوں زیر التوا ہیں؟ اس کا جواب عدالت دے، وکیل تو نہیں دے سکتا۔
چھوٹی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج دلائل ختم کرنے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر چھوٹی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج ہی دلائل ختم بھی کرنے ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے، جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں، جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں وہاں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے۔ جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔
خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نہیں کہتا کہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائےگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں ہر لفظ کو ایک معنی دینا ضروری ہے، آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر، سینیٹ سب کے انتخابات کے لیے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے۔ کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہو ہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہو رہا ہے، جسٹس منیب اختر کا مخدوم علی خان سے مکالمہ، آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہو رہا ہے۔
ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتا ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر انتخابات کو سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہونا چاہیے، سیکرٹ بیلٹ کہاں ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتا ہے۔
تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں، چیف جسٹس
مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مختصر وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری رکھے۔ سنی اتحاد نے جس طرح کیس کو عدالت میں پیش کیا ویسے ہی اسے دیکھنا چاہیے، سنی اتحاد نے کوئی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا ہوتی ہیں، جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں، ان پر مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا لازم نہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت کو مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ بھی جمع کروانی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں کبھی نہیں کہوں گا کہ میں نے غلطیاں نہیں کیں۔
کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال ہی یہ ہے کہ آپ کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف ہمارے سامنے نہیں، تحریک انصاف تو سنی اتحاد کو سپورٹ کر رہی ہے۔ کیس ہمارا سنی اتحاد کا ہے، تحریک انصاف کا نہیں، خود سے نیا کیس نہ بنائیں۔ میں تو بار بار بول کے تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر 86 آزاد امیدواروں سے آپ کو فائدہ ہوگا تو کس متناسب کے ساتھ ہوگا؟ کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔
کوئی جج ریٹائر ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دےگی؟ چیف جسٹس
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کوئی ممبر استعفیٰ دیدے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دےگی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی جج ریٹائر ہوجائے تو سپریم کورٹ کام کرنا تھوڑی چھوڑ دےگی؟ اگر کوئی ممبر نہیں یا نشست خالی ہے تو ضمنی انتخابات ہو جائیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سنی اتحاد کو سیاسی جماعت ہی ٹریٹ کیا گیا تھا، تمام سیٹیں بانٹ دی گئی تھیں۔
بطور سپریم کورٹ ہم نے اپنے سر ریت میں دفن کر رکھے ہیں، ہمیں حقائق کا سامنا کرنا چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے، آئین پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، ہر کوئی جانتا ہے اور یہ ظاہر کر رہا ہے کہ شاید ہم ماضی کی کوئی بات کر رہے ہیں، اس عدالت کو خاموش نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اس نے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، کوئی بھی فرشتہ نہیں، سب نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں لیکن اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ بہت ہو گیا، بطور سپریم کورٹ ہم نے اپنے سر ریت میں دفن کر رکھے ہیں، ہمیں حقائق کا سامنا کرنا چاہیے، جبری گمشدگیوں سمیت ہر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمے داری ہم پر آئے گی۔ میری نظر میں آج بھی سب سے اہم درخواست اس عدالت میں 8 فروری الیکشن میں دھاندلی کی ہے۔
جب تک ججز بحال نہیں ہوئے تب تک وکالت چھوڑ دی تھی، چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ہم متناسب نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی کو پورا کریں گے تو یہ بڑی خلاف ورزی ہو گی۔ چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کیا کہ جب کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے ہم وزیر بن جاتے ہیں، اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں، آپ بھی ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہے ہیں۔ ہم مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ اس قدر محو ہوجاتے ہیں، میں نے تو جب تک ججز بحال نہیں ہوئے تھے تب تک وکالت چھوڑ دی تھی۔ جب جمہوریت آتی ہے ہم چھریاں نکال لیتے ہیں، جب کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑا اصول آئین ہے، آئین پر عمل کرنا فرض ہے اختیار نہیں، جب تاریخ کی بات کرتے ہیں تو مکمل تاریخ بیان کریں۔
ماضی میں بھی انتخابات میں پارلیمنٹ مکمل کرنے کے لیے مخصوص نشستیں دی گئیں، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ماضی میں بھی انتخابات میں پارلیمنٹ مکمل کرنے کے لیے مخصوص نشستیں دی گئیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسا کیس کبھی نہیں آیا کہ کسی پارٹی نے انتخابات لڑے نہیں اور مخصوص نشستیں مانگ رہی ہو۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی رہ سکتی ہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں، اسمبلی نامکمل نہیں رہ سکتی خواتین کی مخصوص نشستیں پوری کرنا ہوں گی۔
کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ چیف جسٹس فائز عیسیٰ
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں! فارمولا کیا ہے؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ اگر ایک سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہیں کراتی تو وہ مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم ہو سکتی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلی کا مکمل ہونا ضروری نہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا نہیں کی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایسے کیا متناسب سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں کو مل جائیں گی؟ فرض کریں سنی اتحاد کو نہیں ملتیں مخصوص نشستیں لیکن آپ کو کیسے ملنی چاہیے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں فرضی سوالات کے جوابات نہیں دوں گا۔
پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا موقف کیا ہے؟ دیگر جماعتوں کو چھوڑیں۔
تحریک انصاف کو اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا، سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آئین کو دوبارہ کیوں لکھیں، سارے مسائل تب ہی پیدا ہوتے ہیں جب آئین کی فلسفیانہ تشریحات کی جاتی ہیں، آرٹیکل 5 پڑھیں ہم آئین میں ترمیم نہیں کر سکتے۔ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ تحریک انصاف نے ایسا کیوں کیا؟ اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا۔ سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم نے تو نہیں کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہوں۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ انتخابات کو سپریم کورٹ میں دیکھا جارہا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیسے ظاہر کیا؟ کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ الیکشن کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔
کہہ کہہ کے تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آ رہی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کا کیس ہمارے سامنے نہیں، میں بار بار کہہ رہا ہوں، کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آ رہی؟ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیئں۔ جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف اور تحریک انصاف نظریاتی میں کیا فرق ہے؟ کبھی تحریک انصاف ہوجاتی ہے، کبھی تحریک انصاف نظریاتی ہوجاتی، فرق بتائیں؟
سب سے اہم ووٹ کا حق ہے، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے پہلے دن سے تشویش تھی کہ تحریک انصاف کیوں نہیں سامنے آرہی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاکھوں افراد نے ووٹ دیا، ان کے حق کا تحفظ کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن نے کیسے کہہ دیا کہ امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس تو ایسا اختیار نہیں، امیدواروں نے خود کو تحریک انصاف سے الگ نہیں کیا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سب سے اہم ووٹ کا حق ہے، انتخابات صاف شفاف ہونے چاہیے، سوالات تو بہت سنجیدہ اٹھے ہیں، انتخابات کے طریقہ کار پر سوالات اٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ڈیوٹی ہے کہ کوئی سیاسی انجینرنگ نہیں ہوئی۔ اگر انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور ہم بھی اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کا کام ہے کہ حق رائے دہی کا دفاع کرے، جسٹس منصور علی شاہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، عدالت کے سامنے کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں۔ جو کیس ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے برے بھی، جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا، دنیا کو کیا معلوم، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو ریکارڈ میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلیٰ ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ حق رائے دہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے۔
یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فارم 33 سے واضح ہوگا کہ کون کس جماعت سے ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے خود کہا کہ تمام امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دیا؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟
کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلیریشن دے کر دوسری میں چلا جائے، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایک پارٹی سے وابستگی کا ڈیکلیریشن جمع کرانے والے بعد میں دوسری جماعت میں چلے گئے، اب ان امیدواروں کے بعد والے فیصلے کو دیکھا جانا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی امیدوار کو اختیار ہی نہیں وہ ایک پارٹی کا ڈیکلیریشن دے کر دوسری میں چلا جائے، میری نظر میں اس بات پر امیدوار نااہل بھی ہوسکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی ادادے الیکشن کمیشن نے ان لوگوں کو 2 فروری کے روز آزاد ڈیکلئیر کر دیا تھا، اس کے بعد ان امیدواروں کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی۔ مسئلہ مگر الیکشن کمیشن کے 2 فروری کے آرڈر سے پیدا ہوا، الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی تھی، اس بات پر نتائج لوگ کیوں بھگتیں؟
میں نے آج 3 ججوں سے حلف لیا جس سے یاددہانی ہوئی کہ ہمیں آئین کا تحفظ کرنا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے آج 3 ججوں سے حلف لیا جس سے یاددہانی ہوئی کہ ہمیں آئین کا تحفظ کرنا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے آزاد امیدوار ظاہر کردیا؟ اہم سوال ہی یہ ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کسی امیدوار کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ نوٹیفیکیشن کے 3 روز بعد اگر وہ کوئی اور جماعت میں شامل ہو جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ امیدوار آزاد ہیں یا کسی پارٹی سے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔
الیکشن کمیشن کے پاس ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے، حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بنیادی سوال، جہاں سے بات شروع ہوئی تھی، کہ جب امیدواروں نے پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کی تو الیکشن کمیشن نے کیسے کہا کہ وہ آزاد امیدوار ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں۔
پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے الگ اصول اپنایا گیا، جسٹس منیب اختر
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول جنرل سیٹوں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی گئیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے الگ اصول اپنایا گیا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان آزاد ہو کر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، پی ٹی آئی کے 2 ارکان نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ ہمیں آزاد ڈکلیئر کیا جائے۔
جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا، الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کرسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اپیلوں میں سنی اتحاد نے یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔
انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں، جسٹس اطہر من اللہ
وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں۔ آزاد امیدوار 3 دن کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوں تو مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائےگا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا گیا ہےکہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کے لیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فی الحال حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے سنی اتحاد کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔
سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ آزاد امیدوار شامل ہوئے ہیں
سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع نہیں کرائی گئی۔ جمع کروائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کر دے گا۔ 5 رکنی پشاور ہائیکورٹ کے بینچ نے دونوں کیسز میں سنی اتحاد کے خلاف فیصلہ دیا۔ سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ آزاد امیدوار شامل ہوئے ہیں۔
الیکشن ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کو نشستوں کے لیے لسٹ دینا ہوتی ہے، مخدوم علی خان
مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا تو اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت معطل ہوگئی تھی۔ انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے والے ہی بعد میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفاف طریقہ کار سے نشستوں کے لیے لسٹ دینا ہوتی ہے۔
سرپرائز کی بات ہے کہ سلمان اکرم راجا اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات ہی نہیں کی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرپرائز کی بات ہے کہ سلمان اکرم راجا اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات ہی نہیں کی۔ دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بات کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے۔
سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، مخدوم علی خان
مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیا گیا۔ کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا ہے، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی۔ 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی۔ الیکشن کمیشن کنفرم کرےگا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔ مخدوم علی خان نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔
کاغذات نامزدگی کیساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کیساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا، الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کیے ہوتے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمشین سے مانگا گیا تھا۔
جب امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تو کیا لکھا گیا؟ جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیاکہ جب امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تو اس وقت کیا لکھا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ میں اپنی معروضات ختم کرکے بینچ کے سوالوں کے جواب دوں گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ کیا پی ٹی آئی کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا، جس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی آزاد امیدوار کو پارٹی تو سپورٹ کرسکتی ہے لیکن ہوگا تو آزادامیدوار ہی۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں ٹکٹ پی ٹی آئی نظریاتی کے تھے یا تحریک انصاف کے؟، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا نشان مانگا۔
دلائل جاری رکھتے ہوئے سکندر بشیر نے کہاکہ امیدواروں نے کہنا تھا کہ میں فلاں سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں لیکن انہوں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا نشان مانگا۔
کیا امیدواروں نے تحریک انصاف کا سرٹیفیکیٹ جمع کروایا؟ جسٹس یحییٰ آفریدی کا استفسار
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کہ کیا امیدواروں نے تحریک انصاف کا سرٹیفیکیٹ جمع کروایا؟، جس کے جواب میں سکندر بشیر نے کہاکہ نہیں پی ٹی آئی کا نہیں دیکھا، تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹ تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ ایک آئینی ادارے کی نمائندگی کررہے جس کا کام انتخابات کروانا ہے، پریس کانفرنسز پوری دنیا نے دیکھیں، کیا الیکشن کمیشن نے دیکھا کیوں پریس کانفرنسز ہوئیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں تھی کہ پریس کانفرنسز ہونے کی وجہ دیکھیں۔
وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہاکہ میں مفروضوں پر مبنی سوالات کا جواب نہیں دوں گا، مجھے معلوم نہیں پریس کانفرنسز کیوں ہوئیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی جانب سے کوئی سرٹیفکیٹ نہیں آیا اور وجہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا؟ جس کے جواب میں وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ میرا فیصلہ نہیں تھا۔
آپ کا جواب دینے کا طریقہ مناسب نہیں، جسٹس عائشہ ملک کا الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ
جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کا جواب دینے کا طریقہ کار نامناسب ہے۔
وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ سنی اتحاد نے 6 خطوط الیکشن کمیشن کو بھیجے جن میں سے ایک بھی فارم 66 سے متعلق نہیں تھا۔ اور ساتھ ہی انہوں نے چیئرمین سنی اتحاد حامدرضا کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خطوط پڑھنا شروع کردیے۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ وہ بات کریں جو الیکشن کمیشن نے کی ہے، اپنی رائے نہ دیں۔
13 تاریخ کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے تھے اسی روز سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، جسٹس اطہر من اللہ
بینچ رکن جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ 13 تاریخ کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے تھے اسی دن سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا۔ پی ٹی آئی امیدواروں کے پاس اور کیا آپشن تھا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس بھی فرما چکے جو کیس یہاں نہیں اس پر نہیں جاؤں گا۔
جسٹس اطہر من اللہ بولے آپ ایک آئینی ادارہ ہیں آپ کیوں ایسے کررہے ہیں؟ جس کے جواب میں سکندر بشیر نے کہاکہ میں نے کوئی پریس کانفرنس نہیں دیکھی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ میں اسے پھر یہ جواب سمجھ رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن کسی بے ضابطگی کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔
کیا سنی اتحاد نے کبھی مخصوص نشستوں سے متعلق اپنی لسٹ دی؟ جسٹس یحییٰ آفریدی
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیاکہ کیا سنی اتحاد نے کبھی مخصوص نشستوں سے متعلق اپنی لسٹ دی؟ جس کے جواب میں وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق کوئی لسٹ نہیں دی۔ اگر بینچ میرے منہ سے کچھ کہلوانا چاہتا ہے تو میں نہیں کہوں گا۔ آئین کے مطابق جو جماعتیں نشستیں لینے کے اہل تھیں ان کو ہی ملیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ یہ مناسب طریقہ کار نہیں ہے، لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے غلطیوں پر غلطیاں کی ہیں۔
سیاسی جماعت کو پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوتا ہے، وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ الیکشن رولز کے سیکشن 92 زیلی شق 6 کے تحت پولیٹیکل پارٹی کو پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے لیٹر پر دستخط بھی خود کیے۔
جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ کل ہم نے الیکشن کمیشن سے دستاویزات جمع کرانے کا کہا تھا۔ جس کے جواب میں وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ کل عدالتی کارروائی ساڑھے 4 بجے ختم ہوئی میں دفتر 6 بجے پہنچا۔ ایک خط میں لکھا گیا سنی اتحاد کونسل اتحادی پی ٹی آئی ہے۔
الیکشن کمیشن لسٹیں جمع کرتا ہے، سنی اتحاد نے صرف خطوط لکھے، وکیل الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن تمام لسٹیں جمع کرتاہے، سنی اتحاد نے صرف خطوط لکھے۔
اس موقع پر دورانِ سماعت اردو میں دستاویزات پڑھنے کے لیے وکیل سکندربشیرنے ڈی جی لا سے معاونت حاصل کی۔
سکندر بشیر نے کہاکہ میں ڈی جی لا سے اردو میں دستاویزات پڑھنے کے لیے معاونت چاہوں گا۔
سکندر بشیر نے کہاکہ حامدرضا نے دستاویزات میں سنی اتحاد سے ہوں اور بریکٹ میں اتحادی تحریک انصاف کا نام لکھا۔
کیا الیکشن ایکٹ میں انتخابات میں اتحاد کے قوانین ہیں؟ چیف جسٹس کا استفسار
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ کیا الیکشن ایکٹ میں انتخابات میں اتحاد کے قوانین ہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ الیکشن ایکٹ کے تحت مختلف سیاسی جماعتیں اتحاد کرسکتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیے کہ حامدرضا نے الیکشن کمیشن کو خط میں لکھا اگر بلا نہیں ملتا تو شٹل کاک کا نشان دے دیا جائے۔
حامد رضا پی ٹی آئی کے امیدوار تھے لیکن بلے کا نشان نہیں ملا، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر بولے کہ آپ نے امیدوار سے کیوں نہیں پوچھا کہ آپ سنی اتحاد سے ہیں لیکن پی ٹی آئی کا سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں؟ آپ سنی اتحاد کا سرٹیفیکیٹ دیں۔ جس پر سکندر بشیر نے کہاکہ حامدرضا تو خود چیئرمین سنی اتحاد کونسل ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ تحریک انصاف کے امیدوار تھے لیکن انہیں بلے کا نشان نہیں ملا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر تھا، چیف جسٹس
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر تھا، اس کے اثرات ہو سکتےتھے۔ جمہوریت کی ضرور بات کرنی ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروانا۔
چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر کہاکہ بطور وزیراعظم الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ ایک سال دے دیں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے، اب تو شاید الیکشن کمیشن کے دشمن ہوگئے۔ ’مجھے نہیں سمجھ آتی کیوں اپنی سیاسی جماعت میں انٹر پارٹی الیکشن نہیں کرواتے، کیا یہی جمہوریت ہے‘۔
چیف جسٹس نے مزید کہاکہ سپریم کورٹ میں بھی ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت جمہوریت لے آئے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے بلے کے نشان پر فیصلے سے کنفیوژ کر رہے ہیں۔
جب چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کو روک دیا
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو روک دیا اور کہاکہ بلے کے نشان پر نہیں، سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ دیا تھا۔ انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے نشان کا فیصلہ کہنے میں فرق ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ایک طرف ریویو کررہے ہیں اور دوسری طرف تبصرہ کر رہے ہیں، کسی اور بینچ کا فیصلے پر ریمارکس دینا درست نہیں، اگے چلیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کوئی بھی فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا رہا، کیا الیکشن کمیشن نے بتایاکہ اگر بلا نہیں ہوگا تو تمام امیدوار ایک نشان پر انتخابات کیسے لڑیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 27 جون تک کے لیے ملتوی کردی۔