بجٹ سے پہلے دیگر جماعتوں کے ساتھ بیٹھا جاتا تو اچھا ہوتا، بلاول بھٹو

منگل 25 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بجٹ سے پہلے دیگر جماعتوں کے ساتھ بیٹھا جاتا تو اچھا ہوتا، ہم حکومت کو اچھے مشورے ہی دیتے۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ بجٹ اور پی ایس ڈی پی بننے سے پہلے اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو بھی دعوت دی جاتی اور ان کی تجاویز لی جاتیں، اس میں بہتری ہی ہوتی، ہم حکومت کو بری تجویز دے سکتے ہیں اور نہ حکومت ایسی کوئی تجویز مان سکتی ہے۔

 بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم سب فروری میں الیکشن لڑ کر آئے ہیں اور جانتے ہیں کہ عوام کا اصل مسئلہ کیا ہے، عوام کا اصل مسئلہ ہماری سیاسی بیان بازی یا بیانیہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا مسئلہ نہ ہی سیاسی حمایت، سیاست اور سیاسی اختلاف ہے، ان کو فکر نہیں کہ کون جیل میں ہے، تھا اور جائے گا، عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان جیسے بنیادی مسائل  کی فکر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کے عوام کو اگر کسی سیاسی مسئلے سے دلچسپی ہے تو وہ معاشی مشکلات، معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں دلچسپی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام جب سیاستدانوں، حکومت یا اپوزیشن کی طرف دیکھتے ہیں، انہیں امید ہوتی ہے کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اپنے مسائل ایک طرف رکھ کر عوام کے مسائل کو ترجیح دیں گے اور مل بیٹھ کر اور باہمی مشاورت سے ان کے مسائل کا حل پیش کریں گے

’معاشی بحران کا حل چارٹر آف اکانومی کے بغیر ممکن نہیں‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ شہباز شریف نے بطور قائد حزب اختلاف اور وزیراعظم چارٹر آف اکانومی کی بات کی، اگر ہم پاکستان کے اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ چارٹر آف اکانومی کے بغیر ممکن نہیں۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ یہ چارٹر کہیں سے ڈکٹیٹ نہیں ہوسکتا، نہ ہی یہ ازخود فیصلہ ہوسکتا ہے، اگر چارٹر آف اکانومی بنانا ہے تو سب سے مشورہ کرنا پڑے گا، حکومت کو ایوان کے دونوں جانب بیٹھے رہنماؤں سے بات کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم سب مل بیٹھ کر یہ چارٹر بنائیں تو اس سے عوام اور بزنس کمیونٹی کو ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کو بھی پیغام جائے گا کہ ہم نے ایک، 2 سال کا نہیں بلکہ 10، 20 سال کا پلان مل کر طے کیا ہے اور آئندہ جو بھی جماعت حکومت میں ہوگی وہ اسی پلان پر عملدرآمد کرے گی۔

’افسوس ن لیگ نے معاہدے پر عمل نہیں کیا‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی نے شہباز شریف حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت دونوں جماعتوں میں ایک معاہدہ طے ہوچکا تھا جس کے تحت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پی ایس ڈی پی کا بجٹ مل بیٹھ کر طے کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو پیپلز پارٹی کے مشورے سے پی ایس ڈی پی بجٹ بنانا چاہیے تھا، افسوس کی بات ہے کہ ہم نے اس معاہدے پر عمل نہیں کیا، اگر پیپلز پارٹی پی ایس ڈی پی بجٹ میں شامل ہوتی تو حکومت کو مثبت مشورے دیتی۔

’ملک میں مہنگائی میں کمی آرہی ہے‘

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ معاشی اشاریے بتا رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی میں کمی آرہی ہے، امید ہے حکومت یہ پالیسی جاری رکھے گی اور عام آدمی مہنگائی میں ہونے والی اس کمی کو محسوس کرے گا۔ انہوں نے کہا اگر حکومت نے اپنے 5 سالہ دور میں صرف مہنگائی پر قابو پالیا تو یہ اس کے لیے بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اس سے عوام کا سب سے بڑا مطالبہ بھی پورا ہوگا۔

بلاول بھٹو نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں 27 فیصد اضافہ پر حکومت کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام سے غربت کا خاتمہ ہوگا اور خواتین کی خودمختاری حاصل ہوگی، مختلف ممالک میں اس پروگرام کو بین الاقوامی تعاون سے لایا جارہا ہے تاکہ وہ اپنی خواتین کی مدد کرسکیں، بھارت میں بھی حالیہ الیکشن کے دوران ایک جماعت کی جانب سے اسی طرح کا منصوبہ منشور میں پیش کیا گیا۔

’باجوہ ڈاکٹرائن کے نام پر ہماری کامیابیاں نشانے پر تھیں‘

انہوں نے کہا کہ ہم جب اپوزیشن میں تھے تو ہم جانتے تھے کہ اس ملک میں کس قسم کے خطرے تھے، باجوہ ڈاکٹرائن کے نام پر ہماری کون کون سے کامیابیاں نشانے پر تھیں، جس کے بعد ہم نے فیصلے کیا کہ سیاست کو نقصان ہو یا نہ ہو، پاکستان کا دفاع اور اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے لیے مل کر سیاسی قدم اٹھانا ہے۔

بلاول نے کہا کہ ان خطرات میں اٹھارویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ختم کرنے کی سازش بھی شامل تھی، اب جبکہ ہم سب ساتھ ہیں حکومت وقت نے بی آئی ایس پی میں اضافے کا فیصلہ کیا۔

’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو آئینی تحفظ دینا ہوگا‘

انہوں نے کہا کہ یہ ایک ہی طریقہ ہے جو غربت کے خاتمے اور کسی آفت کی صورت میں عوام کو ریلیف پہنچا سکے، یہ افسوس کی بات ہے کہ کسی ڈاکٹرائن کے نتیجے میں ایسا منصوبہ ختم کیا جائے جو دنیا بھر میں نقل کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو آئینی تحفظ دلوانا چاہیے تاکہ کوئی آگے جاکر ایسی کوئی سازش کامیاب نہ ہوسکے، ہمیں اپنی غریب ترین خواتین اور غریب طبقے کو یہ تحفظ دلانا چاہیے تاکہ یہ منصوبہ ایسے ہی جاری و ساری رہے۔

’یہ عوام دوست بجٹ نہیں‘

بجٹ میں عائد کردہ نئے ٹیکس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارا سیاسی فلسفہ ترقیاتی ٹیکسیشن پر یقین رکھتا ہے، ہر حکومت ٹیکس بیس میں اضافے، غریبوں کے بجائے امیروں پر ٹیکس لگانے، بڑے بڑے آدمیوں کو پکڑنے اور عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کی بات کرتی ہے، تاہم ہر حکومت اس میں ناکام ہوئی، یہ بھی پاکستان کے مخدوش معاشی حالات کی ایک وجہ ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس بجٹ میں بھی 75 سے 85 فیصد ٹیکس رجیم میں ان ڈائریکٹ ٹیکس شامل ہے جس کا بوجھ عام آدمی اٹھائے گا جس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم ایک عوام دوست اور غریب دوست بجٹ پاس کررہے ہیں، ہمیں ایسے فیصلے لینے چاہئیں جس سے عام آدمی کو تکلیف نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات ملنے کے بعد پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سندھ میں ٹیکس بیس اور کلیکشن میں بہتری لائی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں دوسرے صوبوں کی نسبت مسابقتی بنیاد پر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے، نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی کا استعمال نہیں کیا جاتا، بزنس کمیونٹی کو ڈرایا دھمکایا نہیں جاتا بلکہ انہیں ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔

’اشیا پر ٹیکس جمع کرنے کا اختیار صوبوں کو دیا جائے‘

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو بھی سندھ حکومت کی طرح ایسے طریقہ کار اختیار کرنے چاہئیں، عوام کے ساتھ مل کر ایسی پالیسی لانی ہوگی جس سے ٹیکس نیٹ اور ریونیو میں اضافہ ہو۔ بلاول بھٹو نے کہ جب خدمات کے شعبہ پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات صوبائی حکومتوں کو دیے گئے تو تمام صوبوں نے اپنے ریونیو اہداف مقرر کیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سندھ اور پنجاب ایک طرف، خیبپختونخوا اور بلوچستان کی اس حوالے سے کارکردگی ایف بی آر سے بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس اشیا پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کا اختیار آج بھی موجود ہے، اگر وفاقی حکومت یہ اختیار صوبوں کو نہیں دینا چاہتی تو نہ کرے مگر اتنا ضرور کرلے کہ صوبوں کے ساتھ مل کر کلیکشن کروائے، صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کے لیے اشیا پر عائد کردہ ٹیکس جمع کریں، مل بیٹھ کر ٹیکس اہداف طے کیے جائیں کہ کس صوبے نے اس مد میں کتنا ٹیکس جمع کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتیں مقررا اہداف کے مطابق ٹیکس جمع کرکے وفاقی حکومت کو دیں گی، اگر صوبائی حکومتیں ہدف کے مطابق کلیکشن کرنے میں ناکام رہیں تو وہ اپنے بجٹ سے ٹارگٹ پورا کرکے وفاقی حکومت کو ادائیگی کی پابند ہوں گی، اگر صوبائی حکومتیں ہدف سے زیادہ جمع کرلیتی ہیں تو اضافی رقم صوبائی حکومتیں اپنے پاس رکھیں گی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ایک ایسا حل ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہے، وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر وہ ٹیکس ریونیو جمع کرسکتی ہے جو اب تک نہ کرسکی، حکومت تجرباتی طور پر اس طریقہ کار کو ایک یا 2 سال کے لیے شروع کرے، اگر ہم اس میں کامیاب ہوئے تو یہ وفاقی حکومت کی کامیابی بھی ہوگی۔

’ن لیگ نے وعدے پورے نہیں کیے‘

انہوں نے کہا الیکشن میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں معاہدہ طے ہوا لیکن ابھی تک اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اس معاہدے کے تحت جن 18 وزارتوں کو تحلیل ہونا تھا وہ اب تک نہ ہوسکیں، وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں اس کا ذکر کیا تھا مگر اس پر تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا مطالبہ ہے کہ دیگر معاملات پر بات کرنے سے پہلے فی الفور پرانے وعدوں پر عملدرآمد کیا جائے، جن میں غیر مقررکردہ سبسڈیز میں اصلاحات لائیں گے، پاکستان میں حکومت سالانہ بجٹ میں ایک ہزار 500 ارب روپے ان ڈائریکٹ سبسڈی کی صورت میں رقم رکھتی ہے، ہر سال فرٹیلائزر کمپپنیوں کو اربوں روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے، ہمارے منشور کا حصہ تھا کہ ہم یہ سبسڈی ان کمپنیوں سے لے کر براہ راست کسان کو منتقل کریں گے، مگر افسوس حکومت نے اب تک اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔

انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ ان بڑی کمپنیوں اور بڑی بڑی لابیز کی سبسڈ ختم کی جائے، ان لابیز کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے، فرٹیلائزر کمپنیوں کے بجائے کسان کو سبسڈی دے کر ہم ملک میں معاشی انقلاب لاسکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp