کیا آپریشن عزم استحکام، آخری آپریشن ہے؟

بدھ 26 جون 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نئی امیدوں، نئے وعدوں اور نئے دعووں کے ساتھ ایک نئے آپریشن کے آغاز کا اعلان ہو چکا ہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا اپریشن نہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی آپریشن ہوئے۔ ہر آپریشن میں کم و بیش یہی دعوے ہوئے، یہی نعرے لگائے گئے، یہی خواب دکھائے گئے۔ کہا گیا کہ اس بار دہشت گردوں کی کمر توڑ دی جائے گی، کہا گیا کہ اس بار ملک دشمن قوتوں کو سرنگوں کر دیا جائے گا، کہا گیا کہ اس بار گڈ اور بیڈ کی تخصیص نہیں کی جائے گی، کہا گیا کہ اس دفعہ آپریشن ٹارگٹڈ کیا جائے گا، کہا گیا کہ اس بار عوام کی تائید حاصل ہے لیکن ہر بار دہشت گردی کا عفریت پھر سے عود کر آتا ہے اور ہمارے حصے میں آہیں، ماتم اور آنسو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

یہ کیسے آپریشن ہوتے ہیں جو ہر کچھ عرصے کے بعد ہماری کمر پر ضرب لگا کر چلے جاتے ہیں، یہ کیسے آپریشن ہوتے ہیں جو ہمارے ہی بچوں کو یتیم ہماری ہی عورتوں کو بیوہ اور ہمارے ہی جوانوں کی زندگیاں لے کر چلے جاتے ہیں۔

آپریشن سے اختلاف کی نہ مجال ہے نہ جرات، بس التماس ہے کہ کاش! یہ آپریشن آخری ہو۔ اس دفعہ کیے گئے وعدے پورے ہوں۔ اس دفعہ دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر نصیب ہو۔ اس دفعہ نشانہ دہشت گرد ہوں، مضروب کسی قومیت کے فرد نہ ہوں۔ اس دفعہ ان کی کمر کے علاوه ان کا منہ بھی ٹوٹ جائے تاکہ وه ہمیشہ کے لیے اس خطہ پاک سے نیست و نابود ہوجائیں کیونکہ اب نہ ہم میں لاشیں اٹھانے کی سکت ہے نہ اپنے جوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلتے مناظر کو دیکھنے کی ہمت ہے۔

اب اپنی بساط سے زیاده ہم سہہ چکے ہیں۔ اب آنسوؤں کے سوتے بھی خشک ہوچکے ہیں اور مزید ماتم کا بھی یارا نہیں۔

اس دفعہ آپریشن کے حوالے سے خدشات پہلے سے زیاده ہیں۔ پہلے خدشات صرف ایک قومیت کو ہوتے تھے جو کسی حد تک درست بھی تھے۔ اس قوم کے لوگ کہتے تھے ڈاکو تو کچے کے بھی ہوتے ہیں، دہشت گردی کےواقعات تو پنجاب میں بھی ہوتے ہیں، سندھ بھی ڈاکوں کے قصوں سے بھرا پڑا ہے تو آپریشن ہم پر ہی کیوں مسلط کیا جاتا ہے؟ بموں کی بارش ہمارے گھروں پر ہی کیوں ہوتی ہے؟ ہمیں ہی کیوں گھروں سے دربدر کیا جاتا ہے؟ ہمارے ہی شناختی کارڈ پر کیوں اعتراض اٹھتا ہے؟ ہماری ہی قومیت کو کیوں شک سے کیوں نگاه سے دیکھا جاتا ہے؟

ہماری نوجوان نسل کے نصیب میں کیا آپریشن ہی لکھ دیے گئے ہیں؟ کیا سکون کا کوئی لمحہ، علم کی کوئی بات، امن کا کوئی سبق، دانش کا کوئی درس، محبت کا کوئی جملہ ہمارے نصیب میں نہیں ہے؟

ہمارے بچے ہم سے سوال کرتے ہیں، ہم سے ان جرائم کے بارے میں پوچھتے ہیں جو ہم نے کبھی کیے ہی نہیں۔

پہلے آپریشنز اور اس دفعہ کے آپریشن میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ پہلے خیبر پختونخوا کے عوام ارباب اختیار سے اس حد تک ناراض نہیں تھے۔ اگر ناراض بھی تھے تو ان کے شکوے زبان تک نہیں آئے تھے۔ اب مسئلہ اور مرحلہ اور ہے۔

اب اختلاف اور انتشار کو ایک سیاسی قوت کا نام مل چکا ہے۔ جو کسی بھی ایسے لمحے کی منتظر ہے جہاں ریاست کو ہزیمت کا سامنا ہو اور پھر یہ سیاسی قوت ریاست کے ڈھول کا پول کھولنے کو سامنے آئے۔
اگرچہ مخلتف فورمز سے بار بار اس بات کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے کہ اس دفعہ آپریشن ٹارگٹڈ ہوگا، اس کا نشانہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بنے گی مگر پی
ٹی آئی کے خدشات بے جا نہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ان کو اپنے سائے سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ یہ سیاسی جماعت اب اس شدت سے ابہام کا شکار ہے کہ اس کے لوگوں کو قطعی طور پر اس بات کا علم نہیں کہ انہیں کس بات کا ساتھ دینا ہے، کس بات سے اجتناب کرنا ہے، کس سے اختلاف کرنا ہے، کس سے اتفاق کرنا ہے، کس کی بات ماننی ہے اور کس کی بات رد کرنی ہے۔

پی ٹی آئی چائے کی پیالی میں طوفان بپا کرنے میں ید طولیٰ رکھتی ہے اور یہ آپریشن تو اپنی حیثیت میں ایک بڑا طوفان ہے۔ اس کی آڑ میں ناراض پی ٹی آئی کے ارکان کس جانب جا سکتے ہیں اس کے بارے میں ابھی سے سوچ لینا چاہیے۔ کیونکہ اس بات کی پیش بندی کرنا بہت ضروری ہے۔ ان لوگوں کو مطمئن کرنا فرض اولین ہے۔

ان لوگوں کا تعلق ایک ایسی سیاسی جماعت سے جو آج کل اسٹیبلشمنٹ کے مزاج سے لاگا نہیں کھاتی مگر اس کے ورکرز اسی ملک کے باشندے ہیں، اسی زمین کے باسی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں
لوگوں کی منشا کے خلاف جانے کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے۔

آخری بات، یہ درست ہے کہ یہ پارلیمنٹ اب بس ایک ڈیبیٹنگ ہاؤس بن کر ره گئی ہے۔ اب کسی کی منشا پر یہاں پر قانون پاس بھی ہو جاتے ہیں اور قانون پاس کرنے کے لیے بندے دستیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ ایک دن میں سو ، سو قوانین پاس کرنے کی ریت بن گئی ہے۔ اس پارلیمنٹ میں گالم گلوچ ہوتا ہے، عوامی نمائندوں کی تضحیک اور بے توقیری ہوتی ہے، بس عوامی فلاح کا کام نہیں ہوتا۔ اس سب کچھ کے باوجود کہ ہم نے دہائیوں کی مشقت کے بعد اس پارلیمان کو اس حد تک بے توقیر کر دیا کہ اب اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی لیکن اس بے توقیری اور بے وقعتی کے باوجود اگر آپریشن شروع کرنے سے پہلے ایوان کی تائید حاصل کر لی جاتی، پارلیمان سے مشوره کر لیا جاتا تو پارلیمان کی عزت کو بحال نہیں ہونا تھا مگر شاید جمہوریت کے نام پر کچھ شو شا ہو جانی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp