آئسکریم بیچنے والی لڑکی اربوں کے کاروبار تک کیسے پہنچی؟

بدھ 26 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت کے ایک متوسط ​​گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہ عام سی لڑکی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات گئی اور اپنی فیس پوری کرنے کے لیے وہاں 20 درہم کی آئس کریم فروخت کرتی رہی۔ آئس کریم بیچنے والی اس لڑکی کا نام قرۃ العین ہے جو حیران کن طور پر آج اربوں ڈالر کی جائیدادیں بیچنے کا کاروبا کرتی ہے۔

دبئی ایک ایسا شہر ہے جہاں خواب پورے ہوتے ہیں، فٹ پاتھ سے عالیشان زندگی کی کہانیاں اس کی گلیوں میں گونجتی ہیں۔ یہاں اکثر ایسے افراد کے بارے میں سننے میں آتا ہے جو صرف چند درہم لے کر دبئی آئے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اربوں درہم کے لین دین کے کاروبار کی نگرانی کرتے ہوئے کروڑ پتی بن گئے۔

ڈی آر ای کی شریک بانی اور چیئرپرسن قرۃ العین بھی کی کامیابی کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ آئس کریم بیچنے سے لے کر فلک بوس عمارتوں تک، اس کاروباری شخصیت نے دبئی کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں چند سالوں میں اپنا ایک منفرد نام بنایا ہے۔

قرۃ العین نے اپنے کیرئیر کا آغاز سیلز ایگزیکٹو کے طور پر کیا اور 20 سال قبل ایک سپر مارکیٹ میں آئس کریم فروخت کی۔ آج وہ ایک ملٹی بلین درہم کمپنی کی کامیاب لیڈر ہیں جس نے سال 2023 میں 5 بلین درہم سے زیادہ کی جائیدادیں فروخت کیں۔

آئس کریم بیچنے کے ایک سال بعد قرۃ العین نے ایک ہاسپیٹیلیٹی مارکیٹنگ فرم میں ملازمت شروع کی جہاں وہ ہوٹلوں کے ڈسکاؤنٹ کارڈز فروخت کرتی تھیں۔ انہوں نے اس کمپنی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حولے سے ان کا کہنا ہے، ’میں اس ہوٹل کارڈز کی سیلز میں بہت اچھا کمانے لگ گئی تھی اور ماہانہ تقریبا 5 ہزار سے 6 ہزار درہم بن جاتا تھا ۔ گریجویشن کرنے کے بعد مجھے اسی کمپنی کی طرف سے ایک پیشکش ملی اور میری بنیادی ماہانہ تنخواہ 2004 میں 5 ہزار درہم سے 9 ہزار درہم پلس کمیشن کردی گئی۔ اس کے بعد میں ماہانہ 20 ہزار درہم کمانے لگ گئی کیونکہ میں سیلز میں بہت اچھی تھی جس کے بعد یہ میرے خون میں شامل ہو گئی کہ اب کام کرنا ہے تو سیلز کا ہی کرنا ہے۔‘

انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبا ر میں آنے کے بارے میں ان کے چچا نے انہیں کہا جس کے بعد انہوں نے ان کی فرم میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے کہا، ’ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں شامل ہونے کے بعد ہم نے شروع میں بہت اچھا کام کیا لیکن مالی بحران کی وجہ سے چچا کو 40 ملین درہم کا نقصان ہوا جس کے بعد انہوں نے کمپنی کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد وہ کمپنی میں نے اور میرے بھائی نے سنبھال لی اور ہم نے دبئی سلیکون اویسس میں جائیدادوں کو لیز پر دینے کا کام شروع کر دیا۔‘

کاروبا ر میں ٹرنگ پوائنٹ

قرۃ العین بتاتی ہیں، ’ہمارا لیزنگ کا کام اچھا چل رہا تھا لیکن اہم موڑ اس وقت آیا جب ہماری ملاقات سعودی ارب پتی عبداللطیف جمیل سے ہوئی جو اپنے کاروبار کو جنگ زدہ لبنان سے منتقل کرنے کے لیے دبئی میں ایک تجارتی جگہ خریدنا چاہتے تھے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے ہمیں پلازے کی ایک منزل خریدنے کو کہا جس کی قیمت 8 ملین درہم تھی۔ پھر انہوں نے مجھے مزید پراپرٹی خریدنے کے لیے بلایا اور میں نے انہیں اسی عمارت میں مزید 13 منزلیں خرید کر دیں۔ یہ ہماری زندگی اور کاروبار کی کامیابی کا ایک اہم موڑ تھا۔‘

انہوں نے کہا، ’عبداللطیف جمیل گروپ کے ساتھ کامیاب ڈیل کے بعد اس گروپ نے مزید کلائنٹس ریفر کیے، اس کی وجہ سے ہمارے کاروبار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور  ہم ایمریٹس ہلز، دی لیکس اور میڈوز میں پراپرٹیز فروخت کرنے میں مصروف ہوگئے،  کراما میں ہم نے اپنے ابتدائی 400 مربع فٹ کے دفتر کو دبئی بزنس بے میں منتقل کیا جس نے ہمارے لیے کامیابی کے نئے دروازے کھول دیے، پچھلے سال ہم نے 5 بلین درہم سے زیادہ کی پراپرٹیز فروخت کرتے ہوئے ایک اہم سنگ میل حاصل کیا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp