سعودی عرب کے شہر حائل سے ملحقہ قدیم ترین دیہاتوں میں سے ایک گاؤں جو مشہور سلمیٰ پہاڑوں سے ملحق ہے، سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، یہ گاؤں زمانہ جاہلیت (قبل از اسلام) میں سرد پڑ جانے والے آتش فشاں کے دھانے پر واقع ہے۔
مزید پڑھیں
یہ قدیم گاؤں حائل شہر سے تقریباً 90 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے، جس کا نام طابہ ہے، یہ گاؤں اپنے کھیتوں کی کثرت، کھجور کے درختوں، قدیم کنوؤں اور آثار قدیمہ کے نوشتہ جات کے لیے جانا جاتا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق اس گاؤں کی آبادی تقریباً 5 ہزار ہے اور اسے شہر حائل کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جو مملکت کے اندر اور باہر سے آنے والے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
گاؤں کے رہائشیوں کو چیلنجز کا سامنا
1983 میں اس گاؤں میں کئی زلزلوں سے عمارتوں میں گہری دراڑیں پڑ گئی تھیں، کچھ علاقوں میں عمارتوں میں پڑنے والی دراڑوں کی چوڑائی 3 میٹر سے بھی زیادہ تھی، حالیہ دنوں میں گاؤں کے رہائشیوں کو ایک بار پھر آتش فشاں کی وجہ سے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
گاؤں کی ایک رہائشی بریقہ الشمری ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات کے متعرف ہیں، جیسا کہ سعودی حکومت نے رہائشیوں اور کسانوں کو قرضے اور مالی معاونت فراہم کی ہے۔
ایک اور رہائشی محمد السنیتان کا کہنا ہے کہ حالیہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، کمیٹی نے صورتحال کا مطالعہ کیا اور حفاظتی اقدامات متعارف تجویز کیے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں سعودی عرب کی کابینہ نے قدرتی آفت سے متاثر ہونے والے ہر فرد یا ان کے ورثا کے لیے 2 لاکھ ریال کے اضافی معاوضے کی منظوری دی ہے، اس امداد سے مستفید ہونے والوں نے شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا ہے۔