آسٹریلیا کے اولین مسلمان آباد کار کون تھے؟

اتوار 5 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہندوستان (موجودہ پاکستان) اور افغانستان سے آئے ہزاروں مسلمان شتر بانوں کی داستان جنہوں نے آسٹریلیا کے لق و دق صحرائی خطے کو ایک ساتھ جوڑنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ 26 فروری 1606 کا ذکر ہے جب دنیا کا پہلا سفید فام مہم جو ’ولیم جینزن‘ کرہ ارض کے گمشدہ خطے آسٹریلیا تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا اور اپنے دریافت شدہ جزیرے پر چند روز قیام کرنے کے بعد واپس لوٹ گیا تھا۔

اُسی سال ماہ اکتوبر میں ایک ہسپانوی مہم جو بھی یہاں پہنچا تھا اور پھر چند برس کے اندر دیگر ولندیزی مہم جوؤں نے آسٹریلیا کے جنوب مغربی ساحلوں کو دریافت کرکے اس سارے خطے کو براعظم نیو ہالینڈ کا نام دیا تھا۔ اُس دور کے یورپین مہم جوؤں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ پانی اور زرخیز زمین کی واضح کمی کے باعث یہ خطہ نو آبادیات کے لیے نامناسب ہے۔ ولندیزی اور ہسپانوی مہم جوؤں کے بعد حریص انگریز نے اس خطے پر اپنی نظریں جما لی تھیں۔

29 اپریل 1770 کی اتوار کے پت جھڑ کا دن تھا جب برطانوی مہم جو’کیپٹن کُک‘ کا بحری بیڑہ آسٹریلیا کے شمالی ساحلوں پر لنگر انداز ہوا تھا۔ اس موقع پر کیپٹن کُک اپنی سفری ڈائری میں لکھتے ہیں کہ یہاں پر انہیں مقامی باشندوں کو پہلی بار دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جو درختوں کی چھال سے بنی جھونپڑیوں سے باہر نکل کر ہمارے جہاز کو حیرت سے تک رہے تھے۔

یہاں پر ہم نے ایک ہفتہ قیام کے دوران ساحل سمندر پر مچھلیاں پکڑیں اور زمین کھود کر میٹھا پانی نکال کر پینے کے ساتھ یہاں پر اُگی نباتات کے نمونے حاصل کرنے کے علاوہ مقامی باشندوں ’ایب اوریجنیز‘ سے بات چیت کرنے کی بھی کوششیں کیں مگر وہ ہمیں نظر انداز کر دیتے یا پھر بھاگ کر دور کھڑے ہمیں انجانی نظروں سے دیکھتے رہتے تھے۔

لندن واپس پہنچتے ہی کپٹن کُک نے آسٹریلیا کے دریافت شدہ مشرقی ساحل کا نقشہ بناکر اُسے برطانیہ کی نیو ساؤتھ ویلز کالونی کا درجہ قرار دے کر شاہ برطانیہ جارج سوم کے سامنے پیش کیا تھا۔ کیپٹن کُک کی دریافت کے 10 گیارہ سال بعد شاہ برطانیہ کی خصوصی ہدایت پر 13 مئی 1787 کے دن برطانیہ کے جنوبی ساحل’پورٹس ماؤتھ‘ سے 1400 کے قریب جرائم پیشہ مجرموں سے لدے 11 بحری جہاز شاہی بحریہ کے امیر کیپٹن آرتھر فلپ کی قیادت میں آسٹریلیا کو آباد کرنے نکلے تھے۔

بحری بیڑے میں غلہ، ہسپانوی نسل کے گھوڑے، بیل اور گائیں بھی شامل تھیں اور یہ سارے بحری جہاز لندن سے سڈنی کا 24000 کلومیٹر طویل سمندری سفر 250 دنوں میں طے کرنے کے بعد 26 جنوری 1788 کے دن سڈنی کے شمالی ساحل پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اُسی دن کی مناسبت سے یہاں کے مقامی باشندے ہر سال 26 جنوری کو یومِ سوگ کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ یہی وہ دن تھا جب سفید فام مجرموں کی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اسی دن یہاں کے رہائشیوں سے آزادی چھین لی گئی تھی۔

برطانیہ سے سزا یافتہ مجرموں کی آمد کا سلسلہ 1868 تک جاری رہا جس دوران ایک لاکھ اکسٹھ ہزار سفید فام مجرموں کو آسٹریلیا میں بسایا گیا تھا جس میں 25 ہزار خواتین بھی شامل تھیں۔ ان عادی مجرموں کی کالونیوں کی دیکھ بھال و انتظامی امور کے لیے عملہ اور گورنر مقرر کیے گئے تھے اور یہ آباد کار بزورِ طاقت مقامی باشندوں کو اُن کے سر سبز علاقوں سے دھکیل کر اُن پر قابض ہو گئے تھے۔

آسٹریلیا کا وسطی حصہ انتہائی گرم، خشک، بنجر اور ناقابل گزر صحراؤں پر مشتمل ہے، مگر نوآبادیاتی سوچ پورے خطے پر اپنا قبضہ جمانے کی خاطر مقامی باشندوں کی نسل کشی کے علاوہ گھوڑوں اور خچروں کی مدد سے آؤٹ ڈور بستیاں اور نقل و حمل کے راستے تلاش کرنے کے چکر میں تھی لیکن ٹھنڈے یورپ سے آئے آبادکار جہاں آسٹریلیا کے جھلستے تپتے صحراؤں کے سامنے بے بس تھے وہیں اُن کے گھوڑے، بیل اور خچروں میں جھلسا دینے والے صحرائی راستوں کو کھوجنے کی سکت نہ تھی۔

آسٹریلیا میں اونٹ کب اور کیسے پہنچا؟

آسٹریلین گوروں نے 1840 میں بحر اوقیانوس میں واقع جزائر کینری سے 46 اونٹوں کی کھیپ منگوائی تھی جس میں صرف ایک اونٹ زندہ سلامت پہنچا تھا جسے ایک مہم جو اور شکاری ’جان ہورکس‘ نے خرید کر اس کا نام ہیری رکھا تھا۔ جان نے اپنے اونٹ پر بیٹھ کر جیسے ہی کسی پرندے کو نشانہ بنا کر گولی چلائی، ہیری ایسا بدکا کہ بندوق سے نکلی گولی نے جان کے اپنے جبڑوں کو چیر کر رکھ دیا۔ نتیجتاً اُس نے غصے میں آکر اپنے اونٹ ہیری کے سر میں گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا اور پھر کچھ دن بعد وہ خود بھی دنیا سے چل بسا۔

انیسویں صدی کے نصف دوم میں جب آسٹریلیا میں بڑے پیمانے پر معدنیات کی تلاش اور تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا تو اس کام کے لیے جزائر کنیری کے بجائے ہندوستان سے اونٹوں کے ساتھ ساربان ’درآمد‘ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آسٹریلین تاریخ دان پامیلا راجکوؤسکی اپنی کتاب ’اِن دا ٹریکس آف دا کیمل مین‘ میں لکھتی ہیں کہ برطانیہ کی جانب سے آسٹریلیا پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد ہی مہم جوئی کا آغاز ہوگیا تھا، تاہم صحرا ہونے کے باعث گھوڑوں کو سفری مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا اور قابض قوم کسی متبادل جانور کی تلاش میں تھی۔

1850 میں جب آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریہ میں سونا دریافت ہوا تو یہاں کے مجرموں کے وارے نیارے ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آسٹریلیا یورپین اقوام کے لیے کالا پانی اور بدنام زمانہ جیل کے بجائے سونے کی مورتی بن گیا۔ برطانیہ، جرمنی، اٹلی، یونان اور دیگر یورپی علاقوں سے کئی طالع آزماؤں نے یہاں کا رخ کیا، جسے آسٹریلیا کی تاریخ کا مشہور زمانہ گولڈ رش پیریڈ کہا جاتا ہے۔

سونے کی دریافت کے ساتھ میلبورن سلطنت برطانیہ کا دوسرا بڑا معاشی شہر بن کر ابھرا۔ سونے اور معدنیات کی مزید کھوج اور کان کنی کا سامان پہنچانے کے لیے اونٹوں کا تقاضا بڑھنے لگا۔ چنانچہ 1850 میں رائل سوسائٹی آف وکٹوریا کی ’برک اینڈ ویلز ایکسپیڈیشن‘ نامی 19 رکنی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ متحدہ ہندوستان سے سفری مقاصد کے لیے اونٹ درآمد کیے جائیں اور اُسی سال 24 اونٹوں کے ساتھ 3 ساربانوں کو کراچی سے میلبورن کی بندرگاہ پر اتارا گیا۔

1855 میں ایک برطانوی افسر جو پہلی اور دوسری افغانی جنگوں کے دوران صوبہ سرحد میں تعینات تھا، وہ اونٹوں کی باربرداری اور خصلت سے شناسا تھا، چنانچہ ریٹائرڈ ہوتے ہی سونے کی تلاش میں برطانیہ جانے کے بجائے آسٹریلیا میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وہ کراچی سے اپنے ہمراہ چند اونٹ اور ساربان لے کر میلبورن پہنچا۔ یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ جب کوئی افسر ہندوستان سے آسٹریلیا کے لیے نکلتا تو اس کے ساتھ اونٹ اور اونٹ بان ہوتے تھے۔

اسی دوران اونٹوں کے ذریعے براعظم آسٹریلیا کو جنوب سے شمال تک عبور کرنے کی خاطر مشہور مہم جو ’رابرٹ اوہارا  برک‘ اور ’ولیم جان ویلز‘ اپنی مشہور زمانہ ’تلاش مہم‘ کے سلسلے میں جون 1860 میں بذریعہ بحری جہاز میلبورن پہنچے۔ رابرٹ، ولیم، جان کنگ اور چارلس گرے سمیت کل 8 افراد اور 24 اونٹ اس مہم کا حصہ تھے۔اس قافلے میں بدیسی اُونٹ اور 3 افغان ساربان لوگوں کی توجہ کا مرکز تھے۔

1860 میں ان مہم جوؤں کا قافلہ میلبورن سے روانہ ہوا جو فروری 1861 میں اپنی منزل مقصود شمالی آسٹریلیا میں خلیج کارپیٹیر جا پہنچا، مگر واپسی پر بھوک اور پیاس کی شدت سے سارے مہم جو ہلاک ہوگئے، صرف ایک مہم جو کو مقامی باشندوں نے زندہ بچا لیا۔

اگرچہ 3 ماہ کی مہم جوئی میں قیمتی جانیں ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھ گئیں مگر اس کے نتیجے میں جانوروں کی چراہ گاہیں، پانی اور سونے کے کئی کانیں دریافت ہوئیں اور یہ سب اونٹ جیسے بدیسی جانور کی غیر معمولی قوتِ برداشت کی وجہ سے ممکن ہوا جو مہم جوئی کرنے والوں کا پسندیدہ ساتھی بن گیا کہ اُنہوں نے صرف 51 لیٹر پانی پی کر 300 کلوگرام وزن کے ساتھ 800 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔

اُونٹوں کے کامیاب سفری مقاصد کو دیکھتے ہوئے دوسری کھیپ ’تھامس ایلڈر‘ کے زیر نگرانی کراچی کی بندرگاہ سے سوار ہو کر 31 دسمبر 1865 کو آسٹریلیا پہنچی، جس میں 124 اونٹ اور 31 اونٹ بان سوار تھے۔ 1920 تک آسٹریلیا میں اونٹ اور ساربانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور اس عرصہ کے درمیان قریباً 20 ہزار اونٹ اور 3 ہزار سے زیادہ شتر بانوں کو بحری جہازوں میں لاد کر 4 سالہ ورک پرمٹ پر ہندوستان سے آسٹریلیا لایا گیا۔

سمندری سفر طے کرنے کے بعد جب اونٹوں کو بحری جہازوں سے اتارا جاتا تو یہ منظر دیکھنے کے لیے ہجوم گھاٹوں پر جمع ہو جاتا تھا۔ بلاشبہ انہی اونٹ بانوں کی بدولت وسطی اور مغربی آسٹریلیا کے ویران علاقوں تک انسانی  رسائی ممکن ہوئی تھی۔

اونٹ بان کون تھے؟

سر پر موٹی پگڑیاں، اپنے سامان میں قرآن اور مصلے لپیٹ کر اونٹوں کی مہاریں تھامنے والے شتربان کہ جنہوں نے 1860 سے 1930 تک آسٹریلیا کے دور دراز علاقوں میں سخت ترین کام کیاتھا، اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق افغانستان سے تھا، مگر یہ بات درست نہیں۔ تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ ان صحرا نوردوں کی اکثریت کا تعلق برطانوی ہند کے شمال مغربی علاقوں (وادی سندھ) سے تھا اوریہ مختلف النسل قومیتوں (پشتون، بلوچی، مکرانی، بروہوی، سندھی، تھلوچڑی، تھری، دامانی، چولستانی، راجھستانی) کا مجموعہ تھے۔

بالکل ان میں بلوچستان کے صحرائی علاقوں سے منسلک جنوبی افغانستان کے لوگ بھی شامل تھے، مگر اکثریت موجودہ پاکستان کے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے پشتون اور بلوچوں پر مشتمل تھی، جو پینٹ شرٹ کے بجائے شلوار قمیص پہننے کو ترجیح دیتے تھے، اسی لیے مقامی سفید فام آبادی نے اپنی آسانی کی خاطر ان سب کو انفرادی نام سے پکارنے کے بجائے اجتماعی طور پر افگھان (افغان) کا نام دیا تھا جسے بعد میں تخفیف کرکے صرف ’گان‘ کہا جانے لگا تھا۔

یہ جفاکش اور محنتی افراد اپنے خاندانوں کے بغیر 4 سالہ خصوصی ورک پرمٹ پر آسٹریلیا لائے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر جنوبی آسٹریلیا (ایڈیلیڈ) میں رہائش اختیار کرلی تھی اور ان کی خیمہ بستیوں کو گھان ٹاؤن کہا جاتا تھا۔ برطانوی راج کے نو آبادیاتی دور میں گھان ٹاؤن کے ساربانوں نے آسٹریلیا کو معاشی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ لوگ ہر اونٹ کی پیٹھ پر قریباً 600 کلو گرام وزنی سامان لادتے اور 4 سے 5 ساربان مل کر 70 اونٹوں کا قافلہ بنا کر روزانہ چالیس 50 کلومیٹر کا سفر طے کرکے مختلف قصبوں، اندرون ملک کانوں اور اسٹیشنوں تک سامان پہنچایا کرتے تھے۔ دور افتادہ علاقوں تک ڈاک بانٹنے، ٹیلیگرام کا نظام، بجلی کے پول اور تار پہنچانا بھی انہی کے ذمے تھا۔

کان کنی اور بھیڑوں کی صنعت کے لیے وسطی علاقوں تک سامان پہنچانا، اوورلینڈ ٹیلی گراف لائن، اسٹاک رُوٹ، اہم باڑ لائنوں، گولڈ فیلڈ واٹر سپلائی، اندرون ملک شہروں (سڈنی سے ایڈیلیڈ، ڈارون)، کان کنی کے کیمپوں، بھیڑوں اور مویشیوں کے اسٹیشنوں تک سامان کی فراہمی، تحقیقی مہمات میں مہم جو گوروں کے ساتھ چلنا، ساحلی بندرگاہوں تک اُون لے جانا، سونے کی کانوں تک خوراک، پانی اور سازوسامان پہنچانا، خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں پانی کے بیرل اور تعمیراتی سامان کی ترسیل ان کے فرائض منصبی کا حصہ تھی۔

اونٹوں کے ذریعے لائی جانے والی ویگنیں اُون کو بھیڑوں کے اسٹیشنوں سے ریل ہیڈز تک لے جاتی تھیں، ڈیموں کی تعمیر میں اسکوپ کھینچتی تھیں اور کھیتی باڑی کے دیگر کاموں میں مدد کرتی تھیں۔ وہ پانی کے ذرائع کا پتا لگاتے اور مسافروں کے لیے سفر کو محفوظ بناتے تھے۔ اس کے علاوہ چائے، تمباکو کی کاشت اور دیگر شعبوں میں بھی ان کا کردار اہم تھا اور انہی ساربانوں کی بدولت آسٹریلیا کے کٹھن اور صبر آزما ریلوے کی تنصیب کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔

ایڈیلیڈ سے ڈاروِن تک ٹیلیگراف لائن بچھانے، سڈنی اور پرتھ کو جوڑنے والی ریلوے لائن کے لیے سروے کی خاطر انہیں استعمال میں لایا گیا تھا۔ انہوں نے 4 ملین مربع کلومیٹر تک پھیلے دشت کے نرم و گرم سینے پر اپنے اونٹوں کے چوڑے قدموں کی ایسی چھاپ چھوڑی تھی کہ وسطی علاقوں کو دریافت کرنے والی ساری مہموں کی کامیابی کا انحصار بھی انہی کے دم پر تھا اور ان کے تعاون کے بغیر آؤٹ بیک کمیونٹیز ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتی تھیں۔

اسلام کے اولین پیامبر

آسٹریلیا میں ان کی آمد کے ساتھ ہی ریسٹ اسٹیشنز اور گودام تعمیر ہونے لگے۔ ان کے قافلے ایک ریاست سے دوسری ریاست سامان منتقل کرنے کے لیے ان ریسٹ اسٹیشنوں پر جمع ہوتے۔ ماری جیسے معاشی جنکشن قائم ہوئے، جہاں پر سامان لادا، اتارا جاتا اور اس طرح سے اندرون ملک الگ تھلگ بسنے والی برادری کے لیے رسد کی لائنیں کھلنے لگیں۔

گھان ٹاؤن نامی کیمپوں میں رہنے والے ساربان آسٹریلیا میں اسلام کا پیغام پھیلانے کا باعث بھی بننے لگے تھے۔ انہوں نے اپنی بستیوں کے نام بھی قبائل کے نام سے رکھنے شروع کیے مثلاً مری اور رند بلوچوں نے اپنی بستی کا نام مری (ماری) رکھا۔ ان کے عقائد میں باقاعدگی سے نماز ادا کرنا تھا اور انہوں نے اپنی دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کیمپوں کے قریب چھپروں کی شکل میں کچی مساجد تعمیر کیں۔

دنیا کے جنوبی کرہ ارض (ساؤتھ پول) کے براعظم آسٹریلیا میں تاریخ کی اولین مسجد 1861 میں جنوبی آسٹریلیا کے علاقے ’ماری‘ میں تعمیر کی گئی تھی۔ 1887 میں دوسری مسجد نیو ساؤتھ ویلز کے قصبے بروکن ہل کے شمالی کنارے پر اونٹوں کے کیمپ کے ساتھ، تیسری 1890 میں ایڈیلیڈ شہر کے وسط میں، چوتھی 1892 میں مغربی آسٹریلیا کے قصبے کُولگاڈی میں اور چوتھی 1906 میں پرتھ شہر میں تعمیر کی گئی تھی۔

کچی مٹی اور گارے سے بنی ان مساجد پر ٹین کی چھتیں ڈالی گئی تھیں، اسی لیے انہیں ٹِن ماسکس بھی کہا جاتا تھا۔ یہ ساری مساجد ان ساربانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کروا کر جنوبی کرہ ارض پر خالقِ حقیقی کا نام بلند کیا تھا۔ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ماری قصبے میں 2 مساجد تعمیر کی گئی تھیں، جن میں سے شمالی علاقے میں واقع مسجد نمازیوں سے خالی تھی، نتیجتاً اس مسجد کو 1956 میں ساربانوں کے معمر بزرگ سید غلام الدین نے شہید کر دیا تھا کیونکہ وہ اس کی مزید دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہاں کے ساربانوں کی اولادوں نے اسلامی شعائر ترک کر دیے تھے اور وہ طویل عرصہ سے اسلام پر عمل پیرا نہیں تھے۔

غان ایکسپریس

چونکہ آسٹریلیا کے سارے بڑے شہر ساحل سمندر کے کنارے آباد ہیں اور وسطی حصہ صحرائی ہے اسی لیے ساحلی علاقوں کے شہروں (ڈارون، برسبین، سڈنی، میلبورن، ایڈیلیڈ، پرتھ) کو آپس میں جوڑنے کے لیے 4 ہزار کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا منصوبہ بنایا گیا تھا جس نے جنوبی ساحل (ایڈیلیڈ) سے شروع ہوکر شمالی کونے (ڈارون) اور مشرقی ساحل (سڈنی) سے مغربی کونے (پرتھ) کو ساتھ ملانا تھا۔

دونوں مجوزہ ریلوے لائنوں کو آسٹریلوی صحرا کے وسط سے گزرنا تھا اور ان ساربانوں کے کیمل ٹرین (قافلوں) کے راستوں پر ریلوے لائنیں ڈالی گئی تھیں۔ 14 اگست 1929کے دن 100 مسافروں کو ساتھ لے کر پہلی ٹرین ایڈیلیڈ سے ڈارون کے لیے روانہ ہوئی تھی اور 2 دن بعد اپنی منزل مقصود تک پہنچی تھی۔

 

دولت مشترکہ کے تعاون سے چلنے والی اس عو امی ٹرین کو آسٹریلین حکومت نے افغان ساربانوں کی خدمات سے منسوب کرکے  ’غان ایکسپریس‘ کا نام دیا تھا، وہی ساربان جو انیسویں صدی میں اپنے اونٹوں کے ہمراہ آسٹریلیا آئے تھے اور سرزمین کے گمنام گوشوں کی تلاش میں بھیجی جانے والی مہمات میں بطور گائیڈ اپنا کردار ادا کیا تھا۔

 ’دی غان ایکسپریس‘ ہفتہ میں 2 دن ایڈیلیڈ سے ڈارون براستہ ایلس اسپرنگز چلتی ہے، اور کم و بیش 2979 کلومیٹر (1,851میل) کا سفر آسٹریلیا کے وسطی علاقوں، چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں اور ماضی کی گھان بستیوں سے گزر کر 2 دنوں میں اپنا سفر مکمل کرتی ہے۔ گھان بستیوں میں مسلمانوں کے قبرستان اور ان کی تعمیر کردہ مٹی کی مساجد آج بھی قائم ہیں۔

نسل پرست آسٹریلیا

1800 کی دہائی کے اواخر میں آسٹریلیا کے دور افتادہ علاقوں کو کھوجنے میں مدد کرنے والے اونٹ بان دراصل آسٹریلین قوم کے معمار تھے کہ جنہوں نے آسٹریلیا کی دور دراز کالونیوں کو ایک فیڈریشن بنانے میں مدد کی تھی۔ ان کی مادری زبانوں، ناموں، تہذیب و ثقافت، کھانے پینے کے حلال انداز، ان کے قبرستان اور مساجد آسٹریلیا کے ڈی این اے کی کثیر الثقافت کا لازمی حصہ تھے۔

چونکہ یہ اپنے مذہب اور بودو باش میں اہلِ یورپ سے مختلف تھے اسی لیے انہیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ آسٹریلیا کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد سفید فام آبادکار باہر سے آنے والے غیر سفید فاموں کے خلاف تھے۔ اُن دنوں سفید نسل پرستی اپنے عروج پر تھی اور  شام کے سائے پھیلنے سے پہلے آسٹریلیا کے آبائی باشندوں سمیت اُن مسلمان ساربانوں کو بھی گوروں کی بستی میں قیام کرنے کی اجازت نہ تھی۔

اسی لیے یہ لوگ قصبوں سے باہر ویرانوں میں خیمے لگا کر ایب اوریجنیز کے ساتھ اکٹھے رہتے تھے، جسے گھان کیمپ کہا جاتا تھا۔ چونکہ انہیں اپنے ہمراہ خواتین لانے کی اجازت نہیں تھی اسی لیے زیادہ تر نے یہاں کی مقامی اینگلو آسٹریلین اور کچھ نے ایب اوریجنیز خواتین سے شادیاں کرلی تھیں۔

اس دور میں 3 ہزار افغان ساربان آسٹریلیا کے علاقے ’ایلس اسپرنگ‘ اور ناردرن ٹریٹری (شمالی علاقوں)میں آباد تھے۔ یہ جفاکش لوگ کئی دہائیوں تک یہاں ’اجنبی‘ تھے اور ان کے پاس کوئی سیاسی حقوق نہیں تھے اور نہ ہی ان کی آواز کو سنا جاتا تھا۔

عزم و ہمت کی شاندار تاریخ جومٹا دی گئی

وائٹ آسٹریلین پالیسی کے تحت مقامی باشندوں سمیت مسلم ساربانوں کے بارے میں لٹریچر کو محدود کردیا گیا اور ان کے قبائل، زبانوں اور رنگ و نسل بارے بہت سے ریکارڈ یا تو جان بوجھ کر ضائع کر دیے گئے یا انہیں توجہ ہی نہ دی گئی۔ اسی لیے ان کی تاریخ اور رہائشی مقامات پر آہستہ آہستہ وقت کی دھول جمنے لگی۔ 1901 کے امیگریشن ایکٹ کے تحت آسٹریلیا میں افغان ساربانوں کے لیے زمین مزید تنگ کر دی گئی اور انہیں تیسرے درجے کی شہریوں میں شمار کیا جانے لگا۔

1920 کی دہائی سے قبل سڑک، پل، ریل کے بنیادی ڈھانچے کے متعارف ہونے تک اونٹوں کی لمبی قطاروں نے آسٹریلیا ئی معیشت کو پروان چڑھانے میں کلید ی کردار ادا کیا تھا مگر 1920 میں جب اونٹوں کی پیٹھوں پر لدی فولادی پٹڑیاں بچھ کر تیار ہوگئیں۔ سڑکیں، ریلوے لائنیں بن گئیں۔ معدنیات دریافت ہو گئیں، موٹر گاڑیاں چلنے لگیں تو اونٹوں سمیت ساربانوں کی افادیت یکسر ختم ہو گئی۔

زیادہ تر اونٹوں کو جنگل میں کھلا چھوڑ دیا گیا، یہ جنگلی ہو گئے اور دشت بھر میں پھیل گئے جبکہ ہزاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور اونٹ مالکان کو متبادل روزگار تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ چونکہ یہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اسی لیے اکثریت نے محنت مزدوری شروع کردی۔

ایڈیلیڈ کی بندرگاہ پورٹ ڈارون بھی انہوں نے تعمیر کی اور سفید فام آباد کاروں کے متعصبانہ سلوک کے باوجود اس امید پر زندہ رہے کہ حکومت کسی دن انہیں مین سٹریم کا حصہ بنالے گی، مگر اس وقت کی متعصبانہ وائٹ آسٹریلین ریاستی پالیسی کے تحت انہیں شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا۔

کرکٹر اسٹیو وا اور مارک وا کا تعلق مسلم ساربانوں کی نسل سے ہے

ان حالات میں کچھ لوگوں نے اپنے کیمپوں کو پیک کیا اور ہندوستان واپس لوٹ گئے، بیشتر نے آسٹریلیا کو اپنا دیس سمجھ کر یہاں کی مقامی ایب اوریجنیز (آدی واسی) اور سفید فام (اینگلو آسٹریلین) خواتین سے شادیاں کرلیں اوریہ لوگ آسٹریلیا کی مقامی ثقافت میں گھل مل گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی نئی نسل اپنی جڑوں، کلچر، زبان اور مذہب سے رابطہ کھو بیٹھی۔ آسٹریلیا میں آج بھی ان کی نسلیں آباد ہیں، مگر غیر اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے کی وجہ سے بہت سے مرتد ہوگئے ہیں۔

مشہور آسٹریلین کرکٹرز اسٹیو وا اور مارک وا کے بارے میں بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق مسلم ساربانوں کی نسل سے ہے مگر انہوں نے کبھی بھی کھل کر افغان یا پشتون نژاد ہونے کا اعتراف نہیں کیا۔

 آسٹریلیاز مسلم کیمیلرز

’پائنیئرز آف دی اِن لینڈ‘ نامی کتاب کی مصنفہ اینا کینی لکھتی ہیں کہ ان مسلمان ساربانوں کو آ سٹریلیا کے مرکزی دھارے میں مناسب طور پر تسلیم نہیں کیا گیا حالانکہ یہی وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے آسٹریلوی معاشرے میں اہم ثقافتی اور معاشی خدمات انجام دی تھیں اور ان کے اونٹوں کے چوڑے پیروں نے معیشت کے پہییے کو گھمانے میں مدد کی تھی۔

سر پر موٹی پگڑیاں، سامان میں قرآن، کھجوریں، مصلے باندھ کر چلنے پھرنے والے ان مسلم ساربانوں نے براعظم آسٹریلیا کے کونے کھدروں میں دبکی الگ تھلگ آبادیوں کے درمیان خوراک کی سپلائی، نقل و حمل اور مواصلات کی لائنیں کھول دی تھیں، جس سے خشک آسٹریلیا کی معاشی ترقی ممکن ہوئی تھی اور اُن کے اونٹوں کے گلوں میں بجتی ٹلیوں کی آوازوں نے آسٹریلیا کے ثقافتی منظر نامے کو مالا مال کیا تھا مگر افسوس کہ ان لوگوں کی خدمات کو سراہنے کے بجائے انہیں بھلا دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp