امریکی صدر جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024 کی امریکی صدارتی انتخاب کی دوڑ کے پہلے مباحثے سے اپنی سیاسی جنگ کا طبل بجادیا ہے، تاہم جمعرات کو منعقدہ اس مباحثے میں ابتدائی حملوں کے باوجود صدر بائیڈن نے کئی مواقع پر اپنے نکات کو بیان کرنے میں جدوجہد کرتے اور الفاظ کے چناؤ میں ہچکولے کھاتے نظر آئے۔
مزید پڑھیں
دوسری جانب اٹلانٹا میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی میزبانی میں منعقدہ اس بحث کے دوران ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے مباحثے کا رخ متعدد مرتبہ صدر بائیڈن کی کمزوریوں کی جانب موڑتے ہوئے امیگریشن اور ملک کی معاشی حالت کے بارے میں خدشات کو بڑھاوا دیا۔
آیا وہ 5 نومبر کے صدارتی انتخابات کے نتائج کا احترام کریں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس نوعیت کے سوالات سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا صرف اس صورت میں کریں گے جب یہ ’منصفانہ اور آزاد‘ ہوں، انہوں اس موقع پر 2020 کے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے اپنے دعوؤں کو بھی دہرایا۔
ملکی معیشت سے بحث کا آغاز
امریکی صدارتی مباحثے کا پہلا سوال ملکی معیشت سے متعلق تھا، جس پر صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں کووڈ وبا سے بری طرح نمٹنے کے باعث ملکی معیشت کا برا حال تھا تاہم ان کی حکومت نے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشی محاذ پر صحیح سمت میں پیش قدمی کی اور ملازمتوں کے ہزاروں مواقع پیدا کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں اسٹاک مارکیٹ بلند سطح پر تھی اور وہ ورثے میں کوئی جنگ چھوڑ کر نہیں گئے، انہوں نے کووڈ کی وبا سے احسن انداز سے نمٹنے کا دعویٰ کرتے ہوئے سب کو یہ کہہ کر حیران کردیا کہ کووڈ کی وبا سے قبل ملکی معیشت اتنی سودمند تھی کہ امریکا اپنا واجب الادا قرض اتارنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
اسرائیلی جارحیت
غزہ پر مسلط اسرائیلی جنگ سے متعلق صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت دنیا میں کسی سے بھی زیادہ اسرائیل کی حامی و مدد گار رہی ہے، ان کے مطابق امریکا نے اسرائیل کو بچایا ہے، حماس کو برقرار رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور ہم نے اسے کمزور کیا ہے۔
صدر جو بائیڈن کے مطابق سبھی فریق جنگ بندی پر راضی ہیں، اس موقع پر غزہ جنگ پر بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل کو اس کا کام مکمل کرنے دینا چاہیے لیکن صدر بائیڈن اسے روک رہے ہیں، بائیڈن ایک فلسطینی بن گئے ہیں لیکن یہ بہت برے فلسطینی ہیں اس لیے انہیں پسند نہیں۔
Biden stops at an Atlanta Waffle House after the debate.
Reporter: "Do you have any concerns about your performance?"
Biden: "No. It’s hard to debate a liar."
Where was THIS guy at the debate?pic.twitter.com/LD33LO4tl9— Victoria Brownworth (@VABVOX) June 28, 2024
خطے میں امن کے لیے آزادفلسطینی ریاست کی تشکیل کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ انہیں اس پر غور کرنا ہوگا۔
نیٹو اتحاد پر موقف
ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار صدر جو بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کو نیٹو سے نکالنے کے خواہاں ہیں جبکہ امریکا کی طاقت کی ایک بڑی وجہ اس کے اتحاد ہیں۔ ’یورپ کی کوئی بھی جنگ کبھی صرف یورپ تک محدود نہیں رہی، ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہے کہ ایک پر حملہ سب پر حملہ تصور ہوگا۔‘
ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یورپی اقوام مل کر بھی دفاع پر اتنی رقم خرچ نہیں کر رہی ہیں جتنا امریکا کرتا ہے، بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں یورپی ملکوں سے کہنا ہوگا کہ وہ بھی اپنے دفاع پر خرچ کریں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اپنے جغرافیہ کے باعث امریکا کی جانب سے دفاع پر اربوں ڈالر زیادہ اخراجات کا فائدہ یورپ کو ہو رہا ہے۔
اہلیت کا شکوہ اور گولف کا چیلنج
عمر سے متعلق پوچھے گئے سوال پر صدر بائیڈن نے کہا کہ ان کے مدمقابل امیدوار ان سے چند برس ہی چھوٹے لیکن اہلیت میں بہت زیادہ کم ہیں، انہوں نے ووٹرز پر زور دیا کہ وہ ان کی ماضی کی کارکردگی دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔
اپنے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بائیڈن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں ان کا باقاعدہ ٹیسٹ ہونا چاہیے، انہوں نے صدر بائیڈن کے مقابلے میں خود کو جسمانی طور پر مکمل تندرست قرار دیا۔
اپنے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے گولف کے کھیل میں اپنی مہارت کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر بائیڈن کو چیلنج کیا کہ وہ گولف کی گیند کو پچاس گز دور تک بھی نہیں پھینک سکتے۔
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو امریکا کی تاریخ کا شرمناک ترین دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان سے عزت، قوت اور طاقت کے ساتھ نکل رہے تھے، دوسری جانب صدر بائیڈن نے ٹرمپ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ صدر تھے تو اس وقت بھی افغانستان میں ہلاکتیں ہورہی تھیں اور انہوں نے اس ضمن میں کچھ نہیں کیا۔
کون زیادہ بولا؟
لگ بھگ 90 منٹ جاری رہنے والےاس صدارتی مباحثے کے دوران دونوں امیدواروں کو میزبانوں کے سوالات کا جواب دینے کے لیے برابر وقت دیا گیا تھا لیکن یہ امیدواروں پر منحصر تھا کہ آیا وہ دیا گیا پورا وقت بات کرنا چاہتے ہیں یا اپنی گفتگو پہلے ختم کر دیتے ہیں۔