بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافے کے بعد حکومت نے شر پسند عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے، 2 روز قبل صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حساس اداروں اور فورسز کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے۔ حال ہی میں کارروائی کے دوران دہشت گردی میں ملوث اہم نیٹ ورک کی گرفتاری عمل میں لائی گئی جس میں تحریک طالبان پاکستان کے 2اہم کمانڈربھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
حال ہی میں نیشنل کاؤئنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران دہشتگردی کے 163 واقعات رونما ہوئے جس میں 111 سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ 300 سے زائد دہشتگردوں کا قلعہ قمع کیا گیا ہے۔ نیکٹا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں انسداد دہشتگردی کی مجموعی طور پر 9 عدالتیں موجود ہیں جن میں 208 مقدمات التوا کا شکار ہیں جبکہ گزشتہ برس دہشتگردی کے مقدمات میں صرف 10 دہشتگردوں کو سزا سنائی گئی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گرفتاری کے باوجود ان شر پسند عناصر کو سزا کیوں نہیں مل پا رہی، اس معاملے پر وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر ممبر بلوچستان بار کونسل راہب بلیدی نے بتایا کہ بلوچستان میں پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اس حد تک اہل نہیں جس طرح اسے ہونا چاہیے۔ دراصل اس محکمے کو اس طرح فعال ہونے ہی نہیں دیا گیا، دہشت گردوں کی رہائی کے معاملہ پر اگر بات ہو تو اس میں ججز کا کوئی قصور نہیں کیونکہ عدالت کے سامنے جو ثبوت لائے جائیں گے عدالت نے تو اسی تناظر میں فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔
استغاثہ کی جانب سے کئی بار دستاویزات تشکیل دینے میں دیر کی جاتی ہے یا عدالت کہتی ہے ثبوتوں کی جلد فرانزک کروائی جائے لیکن اس میں دیر کی جاتی ہے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق دہشتگردوں کو سزائیں نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ فرانزک ڈیپارٹمنٹ کا غیر فعل ہونا ہے۔ ایک تو ہمارے پاس صوبے میں فارنزک لیبارٹری موجود نہیں اور پھر پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں ماہر لوگ ہی موجود نہیں ہیں۔ دراصل یہ ناکامی صوبائی حکومت کی ہے جو ان شعبوں کی جانب توجہ نہیں دے رہی۔
راہب بلیدی نے بتایا کہ صوبے میں اکثر اوقات ایسی گرفتاریاں بھی ہو جاتی ہیں جن کا وقوعے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، ایسے میں ان لوگوں کے اہل خانہ کو بھی بے جاہ پریشان کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی عدالتوں میں ملزم کو شک کی بنا پر بری کرنے کی مثالیں موجود ہیں تو بنیادی چیز یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل تفتیش کرکے ملزم کو عدالت میں پیش کرنا چاہیے اور اگر ملزم بری ہو جائے تو قانون موجود ہے کہ پراسیکیوشن ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس دائر کرسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پاتا۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ علی احمد کاکڑ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے دہشتگردوں کے بری ہونے کا پس منظر دیکھا جائے تو بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم پہلو یہ ہے کہ استغاثہ عدالت کو مناسب ثبوت دینے میں ناکام ہوجاتی ہے، جب تک عدالت کو ثبوت میسر نہیں ہوگا تب تک وہ کیسے کسی کو سزا سنائے گی۔ دوسری سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عدالت میں پیش ہونے والے گواہان خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے جس کی وجہ سے اکثر کیسز میں مناسب گواہی نہیں ملتی، گواہی کی عدم دستیابی کی بنا پر بھی ملزمان کو سزا دینا عدالت کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
ایڈووکیٹ علی کاکڑ نے بتایا کہ اکثر کیسز میں تفتیشی آفیسر کی جانب سے انتہائی کمزور کیس بنایا جاتا ہے، ان کیسز میں ایک پوائنٹ دوسرے پوائنٹ سے نہیں ملتا، کمزور تفتیش کی بنا پر بھی عدالت ملزم کو سزا نہیں سنا سکتی۔ اکثر کیسز میں یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ استغاثہ عدالت میں کیس دائر کرنے میں تعطل کردیتے ہیں، اس دوران ثبوت بھی ضائع ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور عدالت میں کیس لگنے میں دیر لگ جاتی ہے۔