بچ کر بھارت، فائنل میں جنوبی افریقہ ہے

جمعہ 28 جون 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگر کسی کو 1987کے عالمی کپ کا فائنل یاد ہو تو مائیک گیٹنگ کے ’ریسورس سوئپ‘ کو بھی ذہن میں لے آئیں۔ جب انگلینڈ ایک غلط شاٹ کی وجہ سے جیتی ہوئی بازی ہار بیٹھا تھا۔ مائیک گیٹنگ سمیت پوری ٹیم ڈریسنگ روم میں بیٹھی بس ملال ہی کررہی تھی، کپتان ہوتے ہوئے مائیک گیٹنگ اپنے آپ کو کوس رہے ہوں گے۔ لگ بھگ 37 سال بعد ایک اور انگلش کپتان جوز بٹلرپھر اسی کیفیت اور درد سے دوچار ہوں گے۔کیونکہ جب انہوں نے ’ریسورس سوئپ‘ کے چکرمیں اپنی وکٹ گنوائی تو اس کے بعد ایک ڈروانا خواب شروع ہوا۔ بلکہ پھر ٹی 20ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انگلش بیٹنگ لائن تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ یہ وہ غیر ضروری شاٹ تھا جس کے کھیلنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔   جب انگلش اوپنرز نے172رنز کے تعاقب میں بھارتی بولنگ کے پرخچے اڑانے شروع کیے، تو بھارتی کیمپ میں بے چینی اور کھلبلی سی مچی ہوئی تھی۔ 3اوورز کے کھیل میں برق رفتاری کے ساتھ انگلینڈ 26 رنز بنا چکا تھا۔

ہر کسی کو گزشتہ ٹی 20ورلڈکپ کا سیمی فائنل یاد آرہا تھا جب انگلش اوپنرز نے بھارتی بولرز کو تگنی کا ناچ نچایا تھا۔ لیکن اس بار ایسا نہ ہوسکا اور جب آخری انگلش کھلاڑی آؤٹ ہوا تو اسکور بورڈ یہ بتارہا تھا کہ جوز بٹلر کی ٹیم 68رنز سے ہار گئی ہے۔ انگلش ٹیم کا سفر بھی افغانستان کی طرح یکطرفہ شکست کے بعد اس ایونٹ میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ جوز بٹلر کو بھی افسوس ہی ہوگا کہ کاش وہ اکشر پٹیل کی پہلی ہی گیند پر ریسورس سوئپ نہ کھیلتے۔

خوش قسمت روہت شرما

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بھارتی کپتان روہت شرما کا قسمت بہت زیادہ ساتھ دے رہی ہے۔ وہ گزشتہ9ماہ کے دوران ایشیا کپ اور عالمی کپ کے فائنل کے بعد اب ٹی 20ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے جارہے ہیں۔ روہت شرما کی قسمت کے ساتھ ساتھ ان کے جرأت مندانہ فیصلے بھی ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ جب بھی فیلڈ میں کوئی تبدیلی کرتے ہیں،  کسی بھی بولر کو نازک صورتحال میں لاتے ہیں، یہ فیصلہ ان کے حق میں ہی جاتا ہے۔ سیمی فائنل میں جڈیجہ اور کلدیپ یادیو کے ہوتے ہوئے انہوں نے ا کشرپاٹیل کو گیند تھمائی تو یہی وہ لمحہ تھا جب میچ بھارت کی جھولی میں آگرا۔  مین آف دی میچ  اکشر پاٹیل نے اپنے پہلے ہی اوور میں انگلش کپتان جوز بٹلر کو چلتا کیا جس کے نتیجے میں انگلش ٹیم مسلسل دباؤ میں گھری رہی۔ درحقیقت روہت شرما اور بھارت کے دیگر سابق کپتانوں میں یہی فرق ہے۔ روہت شرما نڈر ہو کر فیصلے کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اب تک کامیاب بھی ہیں۔

کوہلی کی ناکامی کی اب فکر نہیں

بھارت کے لیے توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ اس کے اسٹار بلے باز کوہلی آؤٹ آف فارم چلے آرہے ہیں۔ ایونٹ کے دو میچز تو ایسے ہیں جب انہیں کھاتا کھولے بغیر ہی میدان سے باہرجانا پڑا۔ مجموعی طور پر کوہلی 7میچز میں صرف 74رنز ہی کرپائے ہیں۔ لیکن اس وقت بھارتی مڈل آرڈر بالخصوص کپتان روہت شرما بہترین فارم میں ہیں اور اگر کوہلی اسکور نہ بھی کریں تو انہوں نے اپنے کندھوں پرجہاں قیادت کا بوجھ لادا ہوا ہے وہیں رنز بنانے کی ذمے داری بھی بخوبی نبھا رہے ہیں۔ جبھی 7میچز میں 3نصف سنچریوں کی مدد سے 248رنز جوڑ چکے ہیں۔

اب کوہلی رنز کریں نہ کریں ٹیم کے مڈ ل آرڈر میں اتنا دم خم ہے کہ وہ ان کی یہ کمی پوری کرسکتی ہے۔

فائنل میں کیا ہوگا؟

بھارتی ٹیم ایک یونٹ ہو کر تو کھیل رہی ہے لیکن دوسری جانب اس کا مقابلہ جنوبی افریقہ سے ہے۔ جس نے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا ہے۔ دونوں ٹیموں کے پاس بہترین آل راؤنڈر، بلے باز اور فاسٹ بالرز ہیں لیکن اصل مقابلہ تو اسپن کے شعبے میں ہوگا کیونکہ مہاراج اور شمسی جیسی کاٹ دار بالنگ اب تک بھارت کی جانب سے صرف سیمی فائنل میں ہی دیکھنے کو ملی۔ جنوبی افریقی اوپنر ڈی کوک 8میچز میں 204رنز بناکر7ویں نمبر پر ہیں۔ بولنگ کی بات کی جائے تو نوکیاکی 13 اور ربادا کی 12وکٹیں ہیں۔ اسی طرح اسپن بالنگ میں شمسی بھی خطرناک ہتھیار ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے 11کھلاڑیو ں کا شکار کیا ہے۔ بھارت کی جانب سے آکاش دیپ 15اور بمرا 13وکٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ یعنی یہ سمجھیں کہ دونوں ٹیمیں ہم پلہ ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ سیمی فائنلز کے برعکس فائنل کم از کم سنسنی خیزی سے بھرا ہوگا۔ بظاہر یہی محسوس ہورہا ہے کہ اس بار جنوبی افریقہ نئی تاریخ رقم کرنے کی جستجو میں ہے۔ کہیں اب تک کی ناقابل شکست بھارت کے ساتھ عالمی کرکٹ کپ 2023والی کہانی نہ دہرا دی جائے۔

آئی سی سی کی بھارت پر خاص کرم نوازی

پاکستانی تبصرہ نگار جب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ’بھارت کرم نوازی‘ پر کڑی تنقید کرتے ہیں تو بھارتی ذرائع ابلاغ اسے غلط رنگ دینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں لیکن اب دھیرے دھیرے انگلش کرکٹرز بھی اس پہلو کی طرف لب کشائی کررہے ہیں۔ کئی کا ماننا ہے کہ افغانستان اورجنوبی افریقہ کے درمیان سیمی فائنل گیانا میں ہونا چاہیے تھا لیکن بھارتی بورڈ کی فرمائش پر روہت شرما الیون نے وہاں سیمی فائنل کھیلا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ گیانا کی پچ اسپنرز کے لیے سازگار ہے۔ بھارتی ٹیم کو یقین تھا کہ اس کے اسپنرز، انگلش بلے بازوں کو اپنی گرفت میں لے لیں گے اور ایسا ہوا بھی، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ 6انگلش کھلاڑیوں کو بھارتی اسپنرز نے آؤٹ کیا۔ بھارت ٹرینیڈاڈ میں سیمی فائنل کھیلنے کے لیے اس لیے راضی نہیں ہوا کیونکہ اسے یہ خوف ستا رہا تھا کہ فاسٹبولرز کے لیے سازگار پچ اس کے بلے بازوں کا جلوس نہ نکال دے۔ فاسٹ بولنگ کے شعبے میں انگلش ٹیم کو برتری حاصل تھی۔ گیانا میں کھیلنے کی ضد یوں بھی تھی کیونکہ یہاں بھارتی تماشائیوں کی بڑی تعداد ہے۔ اب مخالف ٹیم پر تماشائیوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے کا نیا طریقہ بھارت نے پاکستان کے خلاف احمد آباد کے میچ سے سیکھا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس ایونٹ میں بھارتی ٹیم کے تمام تر میچز پرائم ٹائم میں رکھے گئے،  بھارتی ٹیم نے کوئی ڈے نائٹ میچ نہیں کھیلا۔مقصد صرف یہ تھا کہ بھارتی وقت کے مطابق شام میں میچز کھیل کر اور پھر ان کی نشریات سے بھاری آمدنی وصول کی جائے۔ کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ بھارت کے لیے یہ خاص اہتمام کس خوشی میں کیا گیا۔اسی طرح گیانا جہاں  برسات اپنی چھیڑ خانی کرتی رہتی ہے وہاں کھیلے جانے والے سیمی فائنل کے لیے کوئی اضافی دن نہیں تھا جبکہ ٹرینیڈاڈ کے سیمی فائنل کے لیے ایک اوراضافی دن مقرر تھا۔

مطلب بھارت کی گیانا میں سیمی فائنل کھیلنے کی ضد پرہتھیار ڈالنا اور ورلڈ کپ کے اتنے بڑے ایونٹ میں سیمی فائنل کے لیے ریزرو ڈے نہیں رکھنا، یہ منطق آئی سی سی اور بھارتی کرکٹ بورڈ بخوبی جانتے ہیں۔یہی نہیں بھارتی ٹیم تو اس ایونٹ کی وہ اکلوتی ٹیم ہے جس نے سب سے کم سفر کیا۔ نیویارک میں ہی اس کے میچز کا میلہ لگایا گیا جبکہ پریکٹس میچز کے لیے بھی یہ میدان رکھا گیا۔ اس قدر سہولیات کے بعد اگر کوئی فائنل نہ کھیلے یہ تو زیادتی ہوگی۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی اپنی مجبوری ہے کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی آمدنی ایک بڑا حصہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے طفیل اسے ملتا ہے اور پھر بات تو اُسی کی سنی جاتی ہے جس کا وجود ’منافع بخش‘ ہو۔

افغان ٹیم ریت کی دیوار

اس سے پہلے کھیلے جانے والے سیمی فائنل کا نتیجہ مایوس کن رہا۔ ٹرینیڈاڈ میں افغان تماشائیوں کے ہی نہیں ان کی ٹیم کے بھی چہرے لٹک گئے کیونکہ پہلے سیمی فائنل میں جیسے توقع کی جارہی تھی ویسا نہیں ہوسکا، ہر ایک کوامید تھی کہ سنسنی سے بھرا میچ ہوگا لیکن جنوبی افریقی بولرز  نے کھیل کے آغاز سے جو دباؤ قائم کیا اُس نے کسی بھی مرحلے پر افغان بلے بازوں کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ ایک کے بعد ایک وار ایسے کیے کہ افغان ٹیم چاروں خانے چت ہوگئی۔ وہ سیمی فائنل جس کے بارے میں قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ افغان کرکٹ ٹیم اس بار نئی تاریخ رقم کرے گی اور جنوبی افریقہ پھر سے ’چوکرز‘ ثابت ہوں گے لیکن تاریخ تو یہ رقم ہوئی کہ یہ سیمی فائنل ٹی 20ورلڈ کپ کا مختصر ترین سیمی فائنل بن گیا۔ جس کا فیصلہ صرف 124 گیندوں پر ہوگیا۔ افغان ٹیم نے 71جبکہ جنوبی افریقہ نے صرف 53گیندیں ہی کھیلیں۔ تاریخ تو یہ بھی بنی کہ جنوبی افریقہ نے ہنستے کھیلتے اس سیمی فائنل کو 9وکٹوں سے جیتا کیونکہ افغان ٹیم محض 56رنز پر ہمت ہار بیٹھی تھی۔ جنوبی افریقہ  جس نے جب سے انٹرنیشنل کرکٹ میں  قدم رکھا ہے، بڑے مقابلے کے فائنل میں پہنچنے سے پہلے ہی ذرا سی غلطی اور لاپرواہی کی وجہ سے باہر ہوجاتی تھی۔ یہ سلسلہ 1992سے شروع ہوا تھا۔

مجموعی طور پر جنوبی افریقہ نے ٹی 20اور ایک روزہ میچز کے ورلڈ کپ کے 8سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن بدقسمتی سے ایک بار بھی وہ فائنل میں اپنا پڑاؤ نہیں ڈال سکے۔ لیکن اب مارکم کی قیادت میں جنوبی افریقہ کی ٹیم نے یہ جمود توڑ ڈالا ہے۔ دنیا کو باور کرایا اس بار وہ بہترین تیاری کے ساتھ میدان کا رخ کررہی ہے۔ افغان ٹیم کے محدود ہدف کے تعاقب میں کسی بھی مرحلے جنوبی افریقہ نے کوئی جلد بازی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جنوبی افریقہ کے اعصاب پر ’چوکرز‘ کا خوف اس قدر طاری تھا کہ پورے میچ میں اُس نے صرف ایک ہی چھکا لگایا جو کہ فری ہٹ پر لگا۔

افغانستان کے لیے عالمی کپ

دیکھا جائے تو اس ایونٹ کے بعد افغانستان کرکٹ ٹیم اب ہر مخالف کے لیے کٹھن آزمائش ثابت ہوگی۔ اس ایونٹ سے اگرکسی ٹیم کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے تو وہ بلاشبہ افغان کرکٹ ٹیم ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ 56رنز پر ڈھیر ہونے کے باوجود افغان کپتان راشد خان نے شکست کا ملبہ اوپنرز یا مڈل آرڈر پر نہیں ڈالا۔ بلکہ وہ فخریہ کہتے ہیں سیمی فائنل کھیلنا اور جنوبی افریقہ جیسی بڑی ٹیم سے ہارنا قبول کرتے ہیں۔ یہ توافغان ٹیم کے لیے صرف شروعات ہے، اب کسی بھی ٹیم کو ہرانے کا اعتماد اور یقین پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ بہرحال کوچ جوناتھن ٹروٹ کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر یہ غصہ ہے کہ اس نے جس پچ پر ٹیموں کو کھلایا وہ کسی صورت سیمی فائنل کی پچ نہیں تھی۔ ہیڈ کوچ کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ سیمی فائنل میں ایک منصفانہ مقابلہ ہونا چاہیے تھا لیکن سارا مزہ پچ نے کرکرا کردیا۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ افغانستان کرکٹ ٹیم نے پیر کی رات سینٹ ونسنٹ میں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا، منگل کو ان کی پرواز 4گھنٹے تاخیر سے پہنچی اور پھر انہیں پریکٹس کے لیے وقت بھی نہیں دیا۔

کیا ایسا پاکستان میں ہوسکتا ہے؟

ٹی 20ورلڈ کپ کے فائنل کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم نے دورہ زمبابوے کے لیے اپنے اسکواڈ کا اعلان کردیا جس کی قیادت شمن گل کررہے ہیں اور یہ سیریز اس ایونٹ کے بعد ہونے جارہی ہے۔بھارتی  اسکواڈ میں صرف 2کھلاڑی ایسے ہیں جو اس ٹی 20ورلڈ کپ کے اسکواڈ میں شامل ہیں۔  لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں نےورلڈ کپ کا کوئی بھی میچ نہیں کھیلا۔بھارت کی  یہ کوشش ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع دے کر مستقبل کا ٹیلنٹ تلاش کیاجائے۔ایک پاکستانی کرکٹ بورڈ اور سلیکٹرز ہیں جنہوں نے ہالینڈ، آئرلینڈ او ر نیوز ی لینڈ کی تیسرے درجے کی ٹیم کے مقابل نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع دینے کے بجائے اپنے فل اسکواڈ کو اتارا۔شاہین، رضوان، شاداب، بابر اعظم یا کسی اور تجربہ کار کھلاڑی نے آرام کرنے کا سوچا تک نہیں۔بھارت نئے اور نوجوان کھلاڑیوں کی کھوج ایسے ہی کرتا ہے جبھی فائنل کھیلتا رہتا ہے اور ایک ہم ہیں، جو دعائیں مانگتے ہیں کہ فلاں ہا ر جائے یا فلاں جیت جائے تاکہ ہمارا راستہ آسان ہو۔

 

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp