مستحکم پاکستان مگر کیسے؟

ہفتہ 29 جون 2024
author image

خواجہ متین

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں 2014 کے پی ٹی آئی کے مشہور زمانہ دھرنے سے شروع ہونے والے سیاسی اختلاف نے پہلے سیاسی انتشار کی صورت اختیار کی اور اب یہ سیاسی تصادم کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ ان 10 برسوں میں اختلاف رائے کے نام پر ننگی گالیوں، گھٹیا ترین الزام تراشی اور کردار کشی کی وہ داستانیں رقم ہوئی ہیں کہ الامان الحفیظ۔۔ میاں محمد نواز شریف کے لندن میں قیام کے دوران ہر دوسرے روز ان کے دفتر کے باہر بانی پی ٹی آئی کی سیاسی فکر سے متاثرہ مرد و خواتین کا ایک میلہ لگتا رہتا تھا، جہاں دشنام اور گالم گلوچ میں سبقت لینے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ جو زیادہ برہنہ گالی دیتا وہ تحسین کا مستحق ٹھہرتا اور ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار کا منظورِ نظر قرار پاتا۔ سیاسی اختلاف رائے کے نام پر نوجوان نسل کے کچے ذہنوں میں نفرت، بغض، دشمنی اور انتہا پسندی کا وہ زہر گھولا گیا کہ اب اس سیاسی کلٹ (cult) کے ہاتھوں کسی مقدس مقام کا کوئی احترام رہا نہ پاک وطن کے شہداء کی عزت وتکریم باقی رہی۔ ان کے نزدیک جو بھی ان کی سیاسی فکر سے اختلاف رکھتا ہے، وہ ملک دشمن، دین بیزار، چور، ڈاکو بلکہ انسان کہلانے کا بھی حقدار نہیں۔

ایک دہائی سے جاری اس فکری انتشار نے ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کر رکھا ہے۔ یہ تو معمولی فہم رکھنے والا فرد بھی جانتا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی گاڑی کو ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑایا نہیں جا سکتا۔ گو کہ بانی پی ٹی آئی نے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ کر آنے والی حکومت کو مشکل امتحان میں ڈال دیا تھا جس کے باعث پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت کے دوران ملکی معیشت کی ناؤ بظاہر ڈوبتی نظر آتی رہی، تاہم 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی اتحادی حکومت نے حالات کو کچھ سنھبالا ضرور دیا ہے۔ آٹا، گھی، سریا، سیمنٹ، پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی آئی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

ملک کے سنیئر ترین سیاستدان میاں محمد نواز شریف کی رہنمائی میں وفاق میں میاں شہباز شریف اور پنجاب میں مریم نواز کی 100 روزہ کارکردگی کو مخالفین بھی سراہنے پرمجبور ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کے آخری دورِ حکومت میں جیسے ملک ترقی کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا، آج کیا وہی حالات نہیں؟ مریم نواز نہ صرف متحرک ہیں بلکہ کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کیا مریم نواز ‘نیا پاکستان’ کے خواب فروش عمران خان کے چہیتے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار سے ہزار گنا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی؟جہاں انھوں نے آئی ٹی سیکٹر سے لے کر بے شمار عوامی فلاحی کاموں کا آغاز کیا ہے، وہیں کسانوں کے لیے 400 ارب روپے کا تاریخی پیکج پنجاب میں زرعی انقلاب کی نوید بن سکتا ہے۔

میاں نواز شریف کے آخری دورِ حکومت میں ان پر بھی الزامات لگے کہ وہ پارلیمنٹ کو وقت بہت کم دیتے ہیں۔ ن لیگ کے ارکانِ پارلیمنٹ بھی یہ شکایت کرتے نظر آتے تھے کہ ہمیں میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ان کے ناقدین بھی یہ کہتے دکھائی دیے کہ میاں نواز شریف دفاعی اداروں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے میں ناکام رہے لیکن دوسری جانب ‘مہاتما’ جو نعرے لگا کر اقتدار میں آئے کیا وہ پورے ہوئے؟ ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کو تو چھوڑیے، کرپشن کے خاتمے کا جس طرح واویلا کیا گیا تھا، کیا کرپشن ختم ہوئی؟ بلکہ انھوں نے اپنے اردگرد جو لوگ اکٹھے کیے وہ سب کرپشن کے الزامات میں لت پت رہے۔

آج ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ لمحہ موجود میں بھی اپوزیشن ارکان کی خاصی بڑی تعداد ہونے کے باوجود بہتر قانون سازی اور عوامی منصوبوں کے لیے تجاویز دینے کے بجائے پارلیمنٹ، پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں الزام تراشی اور گالم گلوچ کا گڑھ بنتی جا رہی ہیں۔ کسی بھی شریف آدمی کی عزت محفوظ نہیں۔ فحش گوئی اور بے ہودہ نعرے بازی معمول کی کارروائی بن گئی ہے۔ جن مقاصد کے لیے ملک بھر کی اجتماعی دانش کا انتخاب ان مقدس ایوانوں کے لیے کیا جاتا ہے، وہ پورے ہونے تو درکنار، اسمبلی اجلاسوں کے ٹی وی اسکرینوں پر چلنے والے مناظر قوم کو پارلیمانی جمہوری نظام سے متنفر ضرور کر رہے ہیں۔

پچھلے دنوں پاکستان کے دورے پر آنے والے چین کے وزیر لیو جان چاؤ نے سی پیک کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے اجلاس (جس میں پی ٹی آئی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی) میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، “ترقی کے لیے اندورنی استحکام ضروری، سرمایہ کاری کے لیے سکیورٹی صورتحال بہتر اور سیاسی جماعتوں کو ملکر کام کرنا ہوگا”۔ یہی وہ نسخۂِ کیمیا ہے جس پر عمل کر کے ہم ملک کو معاشی دلدل سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ چینی وزیر نے جو باتیں کیں عرصہ دراز سے اس ملک سے محبت کرنے والے دانشور اور سیاستدان کر رہے ہیں لیکن ہمارے پی ٹی آئی کے دوست اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ اب چینی وزیر نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے، قوی امید ہے کہ اس پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور ضرور ہو گا۔

سیاست اور ریاست کو علیحدہ کر کے دیکھیں تو بات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنے سمیت بے شمار کوتاہیاں پہلے ہوچکیں۔ حکومت کو ناکام بناتے بناتے کہیں ریاست کو ہی ناکام نہ کر بیٹھیں۔ ریاست ہوگی تو کل کلاں آپ کی باری آسکتی ہے، یہاں وزیراعظم بدلتے کون سی دیر لگتی ہے۔ ملک ہے تو صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس سمیت تمام عہدے بھی ہیں، ملک نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔

آگے بڑھیے اور عمل کیجیے، وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ ملک کی مضبوطی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں، عہدے آنی جانی چیز ہیں، ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ایک مستحکم، خوشحال اور مضبوط پاکستان دے کر جانا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ربع صدی سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں۔ اخبارات میں مختلف موضوعات پر لکھنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی پروگرامز میں سیاسی تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp