سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے آغاز کے لیے کوئی شکایت کی اور نہ ہی کوئی رائے دی۔
خط کے متن میں انہوں نے لکھا ’تاثر دیا گیا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز میری شکایت پر کیا گیا‘۔
مزید پڑھیں
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ اس تاثر کو زائل کیا جائے کہ توہین عدالت کی کارروائی میرے کہنے پر شروع ہوئی۔
انہوں نے خط میں مزید لکھا کہ 2017 سے مجھے تضحیک آمیز مہم کا سامنا ہے۔
واضح رہے سپریم کورٹ نے گزشتہ روز سینیٹر فیصل واوڈا اور رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کی غیرمشروط معافی قبول کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کردی تھی جبکہ عدالت نے ٹی وی چینلز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ اس موقع پر مصطفیٰ کمال کے وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل نے پریس کانفرنس کرکے معافی مانگی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں تو خود توہین عدالت کی کارروائی پر یقین نہیں رکھتا، ایک ساتھی جج نے کمرہ عدالت میں بات کردی تھی اس لیے کارروائی شروع کرنا پڑی۔
یہ بھی یاد رہے کہ سینیٹر فیصل واوڈا نے 15 مئی کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اسی طرح مصطفیٰ کمال نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے دہری شہریت کے معاملے پر عدلیہ میں تضاد کی بات کی تھی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دونوں رہنماؤں کی پریس کانفرنسز کا کا از خود نوٹس لیا تھا۔
17 مئی کو ازخود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔