چمن میں روز پرندوں کی چہچاہٹ صبح کی آمد کا پتا دیتی ہے، چترال کا علی بیگ اس پارک کو ’چمن‘ کہتا ہے، پچھلے 12 سال سے وہ اس چمن کے بے زبانوں کا ان داتا ہے۔
چمن کے مخصوص گوشوں کے مختلف پیڑوں پر انواع و اقسام کی چہکتی چڑیوں، میناؤں، کوئل، طائروں، کوؤں اور گلہریوں کے مسکن ہیں۔
انہی سایہ دار درختوں تلے آوارہ کتے اپنی جسامت کے حساب سے زمین کھود کر اپنی بنائی ہوئی خندقوں میں گولائی کی صورت دبکے پڑے رہتے ہیں جبکہ بلیاں سُستاتے ہوئے بھی چاق وچوبند، یہ چمن ان پرندوں اور جانوروں کا مستقل ٹھکانہ ہے، یہاں انہیں رزق ملتا ہے۔
یہ تو نہیں معلوم کہ چترال سے علی بیگ کب اور کیوں اس شہر میں آن بسا تھا، ہاں البتہ 12 سال سے وہ روز اس پارک میں بلاناغہ نظر آتا ہے، علی بیگ پارک سے متصل ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں ایڈمن مینیجر ہے، دبتا ہوا قد، کسرتی جسم لیکن گھٹنے ایسے محسوس ہوتے جیسے اچانک رکوع میں جاتے بیچ میں ہی رک گئے ہوں، جس طرح اس کے قدم ہوائی چپل کو گھسیٹتے ہوئے تیزی سے اٹھتے ہیں، بولتا بھی وہ اسی رفتار سے ہے کہ بات کرتے ہوئے اس کے آدھے الفاظ زبان سے پھسل کر ہونٹوں پر ہی کہیں دم توڑ جاتے ہیں۔ سر پر بال ایک انچ سے زیادہ کبھی بڑھنے نہیں دیتا، پارک میں آنے والے افراد علی بیگ کے بارے میں بھانت بھانت کی رائے رکھتے ہیں۔
ہی لُکس اِم میچیور۔۔۔۔آئی مین مینٹلی اینڈ فزیکلی چیلنجڈ۔۔۔
مجھے تو منگول چائلڈ جیسا لگتا ہے
آئی گیس! ہی از اوٹسٹک
کھسکا ہوا ہے، دیکھا نہیں کیسے جانوروں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا ہے۔
اس بحث سے قطع نظر کہ علی بیگ اوٹسٹک ہے یا منگول چائلڈ یا ذہنی و جسمانی ادھورے پن کا شکار، اس رائے پر سب متفق ہیں کہ علی بیگ ایک حساس اور درد مند دل رکھنے والا انسان ضرور ہے۔
علی بیگ کو ادب سے عشق ہے، چاہے وہ دیسی ہو یا بدیسی، وہ شہر کے مضافات میں پچھلے سال تک اپنی کتابوں کے ہمراہ اکیلا رہتا تھا، اچانک ایک شام چترال سے خبر آئی کہ اس کے ابا کو دل کا دورہ پڑا ہے، علی بیگ نے صبح تڑکے ہی چترال جانے والی پہلی بس پکڑی اور ایک ہفتے بعد اپنی چند مرلہ آبائی زمین، 2 بھینسیں اور ایک مخمنی سی بکری کو اونے پونے بیچ کر ابا کو اپنے ساتھ لیے شہر چلا آیا۔
علی بیگ کے دو ہی شوق ہیں جن پر وہ اپنی معمولی تنخواہ فراخدلی سے خرچ کرتا ہے، ایک کتابیں اور دوسرے جانور۔
نیر مسعود کا افسانہ ’طاؤس چمن کی مینا‘ علی کی پسندیدہ کہانی ہے، خدا جانے شاید اسی سے متاثر ہوکر وہ اس پارک کو ہمیشہ ’چمن‘ پکارتا ہے۔ واللہ عالم۔
علی بیگ نے چمن کے ہر کونے میں دو بڑے مٹی کے کونڈے رکھ چھوڑے ہیں، صبح ہوتے ہی وہ ایک ہاتھ میں پانی سے بھرا گیلن، دوسرے ہاتھ میں تھیلیوں میں گھر سے لایا ہوا کھانا اٹھاتا اور چاروں جانب رکھے کونڈوں میں پانی انڈیلتا اور دوسرے میں کھانا ڈالتا جاتا ہے۔
’بہت ہی بدبخت ہیں لوگ۔۔۔۔بے زبانوں کے لیے پانی پینے کے کٹوروں تک کو نہیں چھوڑتے، ابھی دو ہفتے پہلے ہی نیا مٹی کا کٹورا لاکر رکھا تھا‘۔
علی بیگ پارک میں چہل قدمی کرنے والوں کو مخاطب کرکے اپنا غصہ اتارنے لگتا، کیونکہ آئے دن اُسے مٹی کے کونڈوں کی جگہ بکھری ہوئی کرچیاں ملا کرتیں۔
لیکن اس کی بڑبڑاہٹ کو نظر انداز کرکے لوگ اپنی واک میں مصروف رہتے۔
تپتی ہوئی گرمی، موسلا دھار بارش یا ٹھٹھرتی ہوئی سردی علی بیگ کو اس مشق سے کبھی روک نہ پائی۔
وہ روز صبح بے زبانوں کے لیے کھانا پانی ڈال کر وہیں گھاس پر بیٹھ جاتا اور اپنے زیر مطالعہ ادبی فن پاروں کا لب لباب انہیں سناتا۔ کتے، بلیاں اس کے ارد گرد منڈلاتے ہوئے اور درختوں پر بیٹھی گلہریاں، کوئل، چڑیا، کوے اس کی کہانیاں ایسے اہتمام اور تجسس سے سنتے جیسے سب سمجھ آرہا ہو۔
ہوسکتا ہے ان چرند پرند اور جانوروں کو ہی ان کہانیوں کی سمجھ آتی ہو، کون جانے بھلا؟
جیسے ہی علی بیگ پارک کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتا، تمام کتوں کی دُمیں خود بخود ہلنا شروع ہوجاتیں، بلیاں مچل کر انگڑائیاں لیتی، کوے پارک کی منڈیر پر قطار در قطار بیٹھ کر کائیں کائیں کرکے باقی ماندہ پرندوں کو بھی دعوت عام دیتے، چڑیاں، کوئلیں، مینائیں اٹھکھلیاں کرتی ہوئیں چہچانے لگتیں اور گلہریاں چٹ چٹاتے ہوئے کبھی زمین کا رخ کرتیں اور دوسرے ہی لمحے پھرتی سے پیڑ پر یہ جا وہ جا۔
یہ صبح کا جشن روز کا معمول ہوتا، علی بیگ کو ان بے زبانوں سے اور انہیں اس اشرف المخلوق سے ایک خاص انسیت تھی۔
چمن کے بیرونی دروازے پر جلی حروف میں لکھا تھا ’یہاں کتوں کا داخلہ منع ہے‘۔
’کتوں کے بجائے یہاں ’شرپسندوں‘ لکھ دو۔
کیوں بھئی؟ کھانا کیوں نہ ڈالوں؟ تمہیں بھوک پیاس نہیں لگتی کیا؟
پارک کے عملے کے ایک ملازم نے علی بیگ کو جب پارک میں جانوروں کے لیے کھانا ڈالنے سے منع کیا تو علی بیگ غصے سے کافی دیر ملازم پر بڑبڑاتا رہا لیکن اپنی روش نہ بدلی۔
’تم نے اپنے گھر کی دیواروں کے کسی کونے میں مکڑی کا جالہ دیکھا ہے کبھی؟ علی بیگ پارک میں آئی بگڑی اولادوں کو جب بلیوں کو دم سے پکڑ کر گھماتے ہوئے یا کتوں کو سوکھی ٹہنیوں سے مارتے دیکھتا تو پیار سے سوال کرتا۔
بچے ہونقوں کی طرح منہ کھول کر علی بیگ کو سر ہلا کر نفی میں جواب دیتے۔
’مکڑی آخری دم تک اس کمرے کے مکین کو اپنا دوست سمجھتی رہی جب تک کہ انسان نے ایک دن جالے میں بیٹھی مکڑی کو جان سے نہ مار دیا، یہ سارے جانور آخری لمحے تک ہم انسانوں کو اپنا دوست سمجھتے ہیں جب تک کہ ہم ایسی بے رحمانہ حرکتیں کرکے انہیں خود سے دور نہیں کردیتے۔ ’علی بیگ بچوں کو ایک کہانی کا حوالہ دے کر سمجھانے کی اپنی سی کوشش کرتا‘۔
علی بیگ کو ان دنوں فرانز کافکا کی کہانیاں پڑھنے کا چسکا پڑا ہوا تھا۔ روز کافکا کی ایک کہانی پڑھتا اور چمن میں آکر سارے کتے بلیوں اور پرندوں کو سناتا۔
وہ ایک رات سوکر اٹھا تو انسان کے بجائے ایک بہت بڑے کیڑے میں تبدیل ہوچکا تھا، اس کی اس کایا کلپ پر اس کے گھر والے پہلے حیران اور پھر پریشان اور پھر اُسے گھن محسوس کرنے لگے، کیڑا نہ دفتر جاسکتا تھا اور نہ وہ کمانے کے قابل رہا تھا، پہلے وہ دفتر والوں کے لیے اور پھر گھر والوں کے لیے بھی ایک بے کار شے بن گیا۔ جب تک وہ کارآمد تھا اس کی بہن اور ماں اس کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہ کرتی تھیں لیکن اب اس کے نصیب میں سب کا جوٹا اور بچا کھچا کھانا ہی رہ گیا تھا جو وہ نہ بھی کھاتا تو کسی کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ پھر ایک روز اس کی محبت کرنے والی بہن اپنے باپ کو اپنے کیڑے نما بھائی سے چھٹکارا پانے کی صلاح دیتی ہے جس پر اس کی ماں خاموش اور باپ تائید کرتا ہے۔ کیڑا بھائی ساری باتیں سن کر صدمے سے نڈھال ہوجاتا ہے اور اگلی صبح ’کیڑا‘ گھر والوں کو مردہ حالت میں ملتا ہے۔
علی بیگ رندھی ہوئی آواز میں ’میٹامورفسس‘ سناتا رہا، آخری جملے میں اس کی سسکیوں کی آواز پر کتے، بلیاں اور تمام پرندے دم سادھے رہے جیسے کہ کہانی کے انجام نے سب کو افسردہ کردیا ہو۔
آج علی بیگ دفتر سے آیا تو جسم تھکن سے چور تھا، بستر پر لیٹا تو ایک واٹس اپ پیغام کی گھنٹی پر اپنا موبائل اٹھا کر دیکھنے لگا، میسج میں دو ویڈیوز اس کی نظروں کے سامنے تھیں۔
’سندھ میں ایک وڈیرے نے اپنے کھیت میں گھس آنے کی پاداش میں 7 ماہ کی اونٹنی کی ٹانگ کاٹ ڈالی‘۔
’راولپنڈی میں ایک بارسوخ شخص نے کسی تنازع پر دوسرے شخص کے گدھے کے دونوں کان کاٹ ڈالے‘۔
دونوں ویڈیوز دیکھ کر علی بیگ زاروقطار رونے لگا، نجانے کب اس کی ہچکیاں مدھم پڑیں اور کس سمے اس کی آنکھ لگی، نہیں معلوم!
آج علی بیگ کے چمن میں نہ چڑیا چہچہائی نہ کوئل کوکی، نہ گلہری چٹ چٹائی، نہ کتے لٹومتے دم ہلاتے بھونکے اور نہ ہی بلیاں غذا کی تاک میں چوکس نظر آئیں۔ آج چمن کے سارے چرند پرند اور جانوروں کی آوازوں میں صبح ہونے کا جشن نہیں، ایک نوحہ ہے۔
ابا ابا۔۔۔دو کمروں پر مشتمل چھوٹے سے مکان میں علی بیگ کی ہذیانی چیخیں آسمانوں کو چھونے لگیں۔
لاغر باپ نیند سے ہڑبڑا کر اٹھا اور بیٹے کے کمرے کی طرف بھاگا۔
علی بیگ بستر پر بے سدھ پڑا درد ناک آواز میں چلائے جارہا تھا۔
کیا ہوا بیٹا؟
ابا میری ٹانگ؟ میرے کان؟ کاٹ دیے ظالموں نے۔۔۔
باپ اپنے صحیح سلامت بیٹے کو غور سے دیکھنے لگا۔
کیا کہہ رہے ہو بیٹا؟ کس نے کاٹ دیے؟
بدبخت انسانوں نے ابا۔۔۔علی بیگ بین کرنے لگا۔۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بہے جارہے تھے۔
بیٹا کیا کہہ رہے ہو؟ ہم سب انسان ہیں، تو بھی انسان ہے، میرا لال۔
علی بیگ نے لیٹے لیٹے اپنا سر تھوڑا سا اٹھایا اور اپنے دھڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
میں انسان نظر آتا ہوں؟ میں کہاں سے انسان نظر آتا ہوں تمہیں ابا؟
یہ دیکھو میرا آدھا دھڑ گدھے کا ہے اور نچلا دھڑ اونٹ کا، ایک انسان نے میرے کان کاٹ ڈالے تو دوسرے نے ٹانگ، ڈاکٹر کو بلاؤ ابا میری ٹانگ اور کانوں سے بہت خون بہہ رہا ہے۔ ڈاکٹر کو بلاؤ ابا۔میری مرہم پٹی کرواؤ۔ مجھ سے اب مزید تکلیف برداشت نہیں ہورہی۔ علی بیگ کی تکلیف دہ چیخیں آہ و زاری میں بدلنے لگیںْ
چمن تمام چرند، پرند، جانوروں اور پیڑ پودوں کی آہ و بکا سے گونجنے لگا۔
علی بیگ کا چمن اور اس کے بے زبان مکین آج انسانوں سے فریاد کر رہے تھے۔