آزاد کشمیر کی وادی لیپہ میں کاشت ہونے والا سرخ چاول

پیر 1 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قدرت نے خطہ کشمیر کو بے پناہ قدرتی حسن سے نوازا ہوا ہے، ریاست دارالحکومت مظفرآباد سے آگے وادی لیپہ کا شمار کشمیر کی حسین وادیوں میں کیا جاتا ہے، وادی لیپہ قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ اپنے منفرد سرخ چاول کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

وادی لیپہ کا شمار آزاد کشمیر کے سب سے زیادہ چاول پیدا کرنے والے علاقوں میں کیا جاتا ہے، عام طور پر چاول کی کاشت ایسے علاقوں میں کی جاتی ہے جہاں درجہ حرارت زیادہ ہو تاکہ گرمی سے چاولوں کو پکنے میں مدد ملے۔

موسمی اعتبار سے دیکھا جائے تو سردیوں میں وادی لیپہ کا درجہ حرارت منفی ڈگری پر چلا جاتا ہے اور برفباری کے باعث کئی ماہ تک علاقے کا زمینی رابطہ دیگر علاقوں سے منقطع رہتا ہے۔

موسم گرما کی بات کی جائے تو دن کے اوقات میں بدستور گرمی ہوتی ہے لیکن شام کے اوقات میں معمولی سردی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لیپہ میں کاشت ہونے والا چاول سرخ ہی پیدا ہوتا ہے جو علاقے کی خاص پہچان ہے۔

وادی لیپہ کے لوگ صدیوں سے اس علاقے میں چاول کاشت کررہے ہیں اور اپنے آباؤاجداد کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، وادی لیپہ کے لوگ موسم گرما میں کاشت ہونے والے چاول اپنے گھروں میں محفوظ کر لیتے ہیں اور موسم سرما میں ہونے والی برفباری کے دوران گھروں میں روٹی سے زیادہ چاول کا استعمال کرتے ہیں۔

دور جدید میں بھی وادی لیپہ کے لوگ اپنے آباؤاجداد کے طریقہ کار کے مطابق کاشتکاری کرتے ہیں۔

چاول کی کاشت ہماری ثقافت میں شامل ہے، مقبول بٹ

وادی لیپہ کے رہائشی محمد مقبول بٹ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا وہ بچپن سے ہی اپنے والدین کے ساتھ سیدپور کے کھیتوں میں کاشتکاری کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ چاول کی کاشت ہماری ثقافت میں شامل ہے، یہاں کا چاول سرخ ہوتا ہے۔ ’یہاں جو چاول پیدا ہوتا ہے اس کی دو اقسام ہیں، ایک لُنڈا چاول اور دوسرا کلالانگل چاول شامل ہے‘۔

محمد مقبول بٹ نے کہاکہ سب سے پہلے ہم پانی میں بیج پھینکتے ہیں، 40 روز تک اس بیج کو پانی میں رکھا جاتا ہے، پھر اس کے بعد کیاریاں بنائی جاتی ہیں اور کھیت میں ہل چلایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پھر ہم چاول کے پودوں کو کیاریوں سے نکال کر اس کی کاشت کرتے ہیں، جس کو مقامی زبان میں ’تروپی‘ کہا جاتا ہے۔

محمد مقبول نے کہاکہ اب ٹریکٹر آگیا ہے جس کی وجہ سے بار بار ہمیں ہل نہیں چلانا پڑتا، 2 بار ٹریکٹر سے اور ایک مرتبہ بیل کے ذریعے ہل چلاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ سرخ چاول کی پیداوار صرف وادی لیپہ میں ہوتی ہے جو بہت لذیذ اور مہنگا بھی ہے۔

’نوجوان نسل اس کام سے دور ہوتی جارہی ہے‘

بلال بٹ کا تعلق بھی لیپہ ویلی سے ہے اور پچھلے کئی سالوں سے وہ راولپنڈی میں مچھلی کا کاروبار کررہے ہیں۔

بلال چاول کی کاشت کے دنوں اپنے گاؤں لیپہ آتے ہیں اور اپنے خاندان کے ہمراہ چاول کی کاشت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے آباؤاجداد اس علاقے میں صدیوں سے چاول کی کاشت کرتے آئے ہیں اور ہم اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ موجودہ دور میں نوجوان نسل اس کام سے دور ہوتی جارہی ہے۔

بلال نے کہاکہ وہ 10 سے 20 لوگ مل کر کام کرتے ہیں، اس سیزن میں چاولوں کی تروپی (کاشتکاری) کی جاتی ہے اور اکتوبر کے مہینے میں فصل تیار ہوجاتی ہے۔

’کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے قدرتی چشموں کے پانی کا استعمال‘

انہوں نے مزید کہاکہ سید پور کا چاول موٹا اور بڑا ہوتا ہے جبکہ اس سے اوپر کے علاقوں میں چاولوں کا سائز چھوٹا ہوتا ہے۔

بلال بٹ نے مزید بتایا کہ کھیتوں کو پانی دینے کے لیے بورنگ کی ضرورت نہیں پڑتی، یہاں قدرتی چشموں کے پانی سے ہی کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp