امریکا کے سابق امیر ترین صدر تھیوڈور روزویلٹ کی چوری ہونے والی چاندی کی قیمتی پاکٹ گھڑی 37 سال بعد واپس اپنی جگہ نیویارک پہنچ گئی ہے۔ تھیوڈور روز ویلیٹ کے امریکا کا صدر بننے سے قبل 1898 میں چاندی سے بنی یہ گھڑی ان کی بہن اور ان کے شوہر کی جانب سے انہیں تحفہ میں دی گئی تھی۔
سابق امریکی صدر تھیوڈور اس گھڑی کو ہمیشہ اپنی جیب میں رکھا کرتے تھے، اس لیے مشہور تھا کہ یہ گھڑی ان کے ساتھ پوری دُنیا گھوم چکی ہے، اس گھڑی کو لانگ آئی لینڈ، نیو یارک میں ان کے گھر جو اب ایک قومی تاریخی مقام ہے، میں رکھا گیا تھا۔
لیکن 1987 میں اس گھڑی کو نیو یارک کے شہر بفیلو میں تھیوڈور روزویلٹ کے قومی تاریخی مقام کے افتتاح کے موقع پر ایک ان لاک کیس سے چرا لیا گیا تھا۔
یہ تاریخی اور قیمتی گھڑی کس نے چرائی یہ ایک معمہ تھا جو قریباً 37 سال تک جاری رہا، اس گھڑی کو اس وقت واپس قبضے میں لے لیا گیا جب ایک شخص نے اسے فلوریڈا کے ایک نیلام گھر میں نیلامی کے لیے پیش کیااور وفاقی ایجنٹوں نے اسے قبضے میں لے لیا۔
تھیوڈور روزویلٹ کے پڑپوتے ٹویڈ روزویلٹ کے اعزاز میں ایک تقریب کے دوران نیشنل پارک سروس اور ایف بی آئی کی جانب سے فاتحانہ طور پر یہ اعلان کیا گیا کہ وہ تھیوڈور کی تاریخی گھڑی برآمد کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
82 سالہ ٹویڈ روزویلٹ نے ایک ٹیلی فون انٹرویو میں کہاکہ ان کے لیے یہ ایک بہت اچھی خبر تھی کیوں کہ انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے تھیوڈور روز ویلٹ کی روح ساگامور ہل میں واپس آ رہی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس گھڑی کے بارے میں پہلے تو کچھ نہیں جانتے تھے لیکن اس کے چوری ہونے کے بعد ہی اس کے بارے میں پتا چلا، انہیں بعد میں پتا چلا کہ یہ ایک تاریخی اور غیر معمولی گھڑی ہے جسے ان کے پڑ دادا بے حد پیار سے ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔
تھیوڈور کے پڑپوتے کا کہنا تھا کہ جیسا کہ پتا چلا ہے کہ یہ صرف کوئی عام پرانی جیب گھڑی نہیں ہےبلکہ یہ ایک ایسی گھڑی ہے جس سے ان کے پڑ دادا تھیوڈور روزویلٹ کو جذباتی حد تک لگاؤ تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گھڑی کے غائب ہونے کا معمہ ابھی تک مکمل طور پر حل نہیں ہوا ہےکیوںکہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اسے کس نے اور کیسے چوری کیا۔ پارک سروس اور ایف بی آئی نے تحقیقات کے بعد اس ہفتے اس کے دوبارہ ظاہر ہونے کی تفصیلات جاری کیں۔
پارک سروس کے مطابق روزویلٹ، جو 1901 سے 1909 تک امریکی صدر رہے، کی یہ گھڑی میساچوسٹس میں والتھم واچ کمپنی جو اب بند ہو چکی ہے، کی جانب سے بنائی گئی تھی۔ یہ گھڑی اپنے دور کی بہت سی جیب گھڑیوں کی طرح ہی دکھائی دیتی ہے، جس کا بیرونی حصہ سادہ چاندی کا ہے اور اس میں کوئی نقش و نگار نہیں ہیں۔
لیکن جب اسے کھولتے ہیں تو اندر سے اس کی اہمیت کا پتا چلتا ہے، جس میں ’ تھیوڈور روزویلٹ‘ اور ’ڈی آر اینڈ سی آر آر سے‘ روزویلٹ کے بہنوئی اور بہن ڈگلس رابنسن جونیئر اور کورین روزویلٹ رابنسن کا حوالہ دیا گیا ہے۔
فلوریڈا کے کلیئر واٹر میں بلیک ویل نیلامی کی مالک ایڈون بیلی کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ گھڑی چوری ہو گئی ہے اور جو شخص اسے ان کے پاس لے کر آیا تھا وہ بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے۔
انہوں نے اس شخص کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی اپنے رشتہ داروں کی شناخت ظاہر نہیں کرتیں، وہ صرف اتنا جانتی ہیں کہ یہ شخص 1970اور 1980کی دہائیوں میں بفیلو میں آرٹ ڈیلر اور نوادرات کا کلکٹر تھا۔
بیلی کا کہنا ہے کہ نوادرات کلکٹر نے انہیں بتایا تھا کہ یہ گھڑی انہیں ایک اور شخص سے ملی تھی جو 1980 کی دہائی کے اواخر میں نوادرات اور دیگر اشیا کو جمع کرنے کے لیے ان سے پیسے ادھار لیا کرتا تھا۔ بیلی نے کہا کہ وہ گھڑیوں سمیت بہت سی چیزوں کو میرے پاس امانت کے طور پر چھوڑ دیا کرتا تھا۔
بیلی نے یہ بھی بتایا کہ نوادرات جمع کرنے والا یہ شخص کافی عرصہ گزر جانے کے بعد واپس نہیں آیا تو معلوم کرنے پر پتا چلا کہ اس کی موت ہو چکی ہے۔
بیلی کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی ہفتوں تک اس گھڑی پر تحقیق کی اور آن لائن آرکائیوز میں روزویلٹ کی تحریروں کا مطالعہ بھی کیا اور اس بات کا حتمی ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کی کہ یہ مستند ہے بھی یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسے کئی شواہد ملے جن کی وجہ سے انہیں یقین ہو گیا کہ یہ گھڑی صدر تھیوڈور کی ہی ہے، ایف بی آئی، پارک سروس اور ساگامور ہل کے حکام نے بعد میں تصدیق کی کہ یہ اصل میں وہی گھڑی ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ اب تو اس گھڑی کے بارے میں تھیوڈور کا تحریر کردہ ایک خط بھی سامنے آ گیاہے جو انہوں نے مئی 1898 میں اپنی بہن کے نام لکھا تھا، خط میں تھیوڈور روزویلٹ نے لکھا کہ ’ ڈارلنگ کورین، آپ مجھے گھڑی سے زیادہ مفید کوئی دوسرا تحفہ نہیں دے سکتے تھے، یہ تحفہ بالکل وہی ہے جو میں چاہتا تھا، گھڑی کے تحفے اور دیگر بہت ساری محبتوں کے لیے ڈگلس کا بھی بہت شکریہ ۔
کہا جا رہا ہے کہ تھیوڈور روزویلٹ کو یہ گھڑی اتنی عزیز تھی کہ انہوں نے 1914 میں اپنی کتاب ’تھرو دی برازیلین وائلڈرنس‘ میں بھی ایک گھڑی کا ذکر کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ کیوبا اور افریقہ کے دورے کے دوران وہاں تیراکی کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ میری گھڑی غصے میں رک گئی۔ بیلی کا ماننا ہے کہ یہ وہی گھڑی تھی جو روزویلٹ کی بہن اور بہنوئی نے اسے دی تھی۔
بیلی کہتی ہیں کہ انہوں نے خط بھی لکھے اور مختلف عجائب گھروں، ساگامور ہل تاریخی مقام اور دیگر کئی لوگوں کو گھڑی کی تصاویر بھی بھیجیں اور پوچھا کہ کیا ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہیں۔
پچھلے سال، گھڑی کو نیلامی کے لیے پیش کرنے سے کچھ دیر پہلے، بیلی کو کئی ایسے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ خریدار ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ایف بی آئی تھی جو گھڑی کی تحقیقات کرنے اور اسے اپنے قبضے میں لینے آئی تھی۔
وفاقی ایجنٹ سوالات پوچھنے میں شائستہ تھے اور انہوں نے انہیں پوری کہانی سنائی، انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ گھڑی اب وہیں ہے جہاں سے اس کا تعلق تھا۔
بیلی کہتی ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے لیے بہت ہی دلچسپ تھا، میرے پاس مٹھی بھر چیزیں ہیں جو میں کہتی ہوں کہ ‘یہ سب سے اچھی چیزیں ہیں جو میں سنبھالی کر رکھتی ہوں، لیکن مجھے اس پر سب سے زیادہ خوشی ہوئی کہ میرے پاس ایک ایسی چیز تھی جسے ایک ممتاز امریکی صدر ذاتی طور پر انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔