یکم جولائی 1948 جب قائدِاعظم نے آخری خطاب کیا؟

پیر 1 جولائی 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

3 جون 1947 کے اعلانِ آزادی کے بعد قائدِاعظم محمد علی جناح 7 اگست 1947 کو کراچی تشریف لائے جبکہ 11 اگست 1947 کو انہیں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا۔ 15 اگست 1947 کو انہوں نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا۔ نوزائیدہ مملکت کی ہمالیہ جیسی مشکلات کا خندہ پیشانی سے اَن تھک مقابلہ کرتے کرتے قائدِ اعظم کی طبیعت نہایت خراب ہوچکی تھی۔

مارچ 1948 میں پاک بھارت مذاکرات میں طے پایا کہ پاکستان جولائی 1948 تک اپنا مرکزی بینک قائم کرلے گا۔ 10 مئی 1948 کو قائدِ اعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کا حکم جاری کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان یکم جولائی 1948 سے بہرصورت اپنا کام شروع کر دے۔

قائدِ اعظم 25 مئی 1948 کو معالجین کے مشورے پر کوئٹہ چلے گئے تاکہ وہاں مکمل آرام کرسکیں۔ 25 جون 1948 کو انہوں نے گورنراسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تقرری کا فرمان جاری کیا۔ جس کے تحت زاہد حسین کو اسٹیٹ بینک کا گورنر مقرر کیا گیا۔ 29 جون 1948 کو قائدِ اعظم کو کراچی لوٹنا پڑا جہاں انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنا تھا۔

قائدِاعظم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح پر لکھی ہوئی تقریر پڑھی تھی جو ان کی آخری سرکاری تقریب اور آخری تقریر ثابت ہوئی۔

یکم جولائی 1948 کو قائدِاعظم گورنر جنرل ہاؤس سے فاطمہ جناح کے ہمراہ بگھی پر سوار ہو کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان پہنچے، اس موقع پر ان کا حفاطتی دستہ بھی موجود تھا۔ گورنر اسٹیٹ بینک زاہد حسین نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ شام 7 بج کر3 منٹ پر قائدِ اعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرکزی دروازے پر لگا چاندی کا قفل، چاندی کی کنجی سے کھول کر بینک کا افتتاح کیا۔ وہ تاریخی قفل اور کنجی سیالکوٹ کے کاری گروں سے خاص طور پر تیار کروائی گئی تھی۔ (جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے میوزیم میں محفوظ ہے)

قائدِ اعظم نے مرکزی دروازے پر لگا چاندی کا قفل، چاندی کی کنجی سے کھول کر اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا۔

برصغیر کے صفِ اوّل کے ماہرِ اقتصادیات، زاہد حسین کو پاکستان کے پہلے گورنر اسٹیٹ بینک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے قائدِ اعظم کے حکم پراسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام میں کلیدی کردارادا کیا تھا۔ انہوں نے استقبالیہ خطبے میں کہا تھا کہ ’ہم نے راہ میں حائل دشواریوں سے مقابلہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے۔ بینک کے قیام میں ہمیں وقت اور تربیت یافتہ عملے کی قلّت کے علاوہ کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔

زاہد حسین کو پاکستان کے پہلے گورنر اسٹیٹ بینک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

چیف اکاوئنٹنٹ اور سیکریٹری اسٹیٹ بینک کا تقرّر صرف ایک ماہ قبل ہوا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے جن مسلمان افسروں اور عملے نے پاکستان کی ملازمت اختیار کرنے کافیصلہ کیا ہے، وہ بینک کی شاخوں کے لیے ناکافی ہیں، اس لیے عملے کی تربیت کے لیے دُور رس منصوبے ناگزیرہیں۔ ہمیں بینک کے قیام کے لیے 3 ماہ سے بھی کم عرصہ ملا، اس دوران چند افراد نے شب و روز کام کرکے وہ مثال قائم کی ہے کہ اسے آئندہ زمانے میں فخر سے یاد رکھا جائے گا۔‘

گورنر اسٹیٹ بینک زاہد حسین نے کہا تھا ’ہم نے راہ میں حائل دشواریوں سے مقابلہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے۔

قائدِاعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح پر لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ اس تقریر و تقریب کی تاریخی حیثیت یہ بھی ہے کہ وہ قائدِ اعظم کی آخری سرکاری تقریب اور آخری تقریر ثابت ہوئی۔ قائدِ اعظم نے افتتاحی تقریب سے خطاب کو اس امید پر ختم کیا کہ اسٹیٹ بینک اسلامی اقتصادی نظام کی نئی تشکیل کے فرائض انتہائی انہماک سے انجام دے گا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ:

’اسلامی زندگی کے معاشرتی اور اقتصادی تصورات سے ہم آہنگ بینکنگ کی تشکیل کے لیے آپ نے جس تحقیقی ادارے کے قیام کی نوید سنائی ہے میں اس کی کار گزاری کا بڑی امید کے ساتھ نگراں رہوں گا۔ مغرب کے اقتصادی نظام نے انسانیت کو ناقابلِ عبور مشکلات میں پھنسا دیا ہے۔

قائدِاعظم گورنر جنرل ہاؤس سے فاطمہ جناح کے ہمراہ بگھی پر سوار ہو کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان پہنچے تھے۔

اس نظام کے ہاتھوں اس وقت دنیا جن خطرات میں مبتلا ہے ان سے نجات کوئی معجزہ ہی دلا سکتا ہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران ہونے والی 2 عالمی جنگیں بڑی حد تک اسی مغربی اقتصادی نظام کی دین ہیں۔ اس لیے مغرب کے اقتصادی نظریہ و عمل کی تقلید ہمارے لیے قطعاً مدد گارثابت نہ ہوگی۔

ہمیں اپنے انداز میں اور اپنی روایات کے مطابق کام کرتے ہوئے ایک ایسا نیا اقتصادی نظام تشکیل دینا ہوگا جو انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ بھی ہو اور عہد حاضر کے تقاضوں کو بھی پورا کر سکے۔ صرف اسی طرح ہم مسلمانوں کی حیثیت میں دنیا کو امن کا پیغام بھی دے سکیں گے اور انسانیت کی مسرت اور خوشحالی کی راہ بھی روشن کر سکیں گے۔‘ (بحوالہ: ماہنامہ ہلال دسمبر 2022، تحریر: فتح محمد ملک)

قائداعظم محمد علی جناح اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سکوں کے سیٹ کا معانئہ کرتے ہوئے

ناسازی طبع کے باعث معالجین کی تجویز پر آپ 7 جولائی 1948 کو دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوئے، تاہم معالجین نے 14 جولائی 1948 کو انہیں زیارت منتقل کردیا جو کوئٹہ کی نسبت سرد مقام تھا۔ قائدِ اعظم 11 ستمبر 1948 کو طبیعت زیادہ خراب ہونے پر کراچی واپس پہنچتے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔

’یہ چھین نہ لے کہیں تجھ سے تیری آزادی ۔ ۔ ۔ ۔ سپرد غیروں کے گھر کا نظام مت کرنا‘

بابائے قوم کی رحلت کے چند ماہ بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی سالانہ رپورٹ میں اعلان کیا گیا تھا کہ اسلامی اقتصادی نظام پر تحقیق کا مجوزہ ادارہ قائم نہیں کیا جائے گا۔ اس کی وجہ فنڈز کی کمی اور موزوں افراد کی عدم دستیابی بتائی گئی تھی۔

گورنر زاہد حسین نے قائدِاعظم کے حکم پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا

کاش! قائدِ اعظم کے وژن پر عمل کیا جاتا تو آئی ایم ایف کی دَریُوزَہ گَری نہ کرنا پڑتی، بقول عارف شفیق:
یہ چھین نہ لے کہیں تجھ سے تیری آزادی
سپرد غیروں کے گھر کا نظام مت کرنا
وہ عاجری کا بھی مطلب غلط ہی سمجھے گا
امیر شہر کو جھک کر سلام مت کرنا

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp