ریاست ” ڈانس کر دی پئی اے”

پیر 1 جولائی 2024
author image

ناصر ادیب

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میری بیٹی کی عمر پانچ سال ہے۔ لاہور کے ایک اچھے سکول میں پڑھتی ہے۔ اسے رنگوں سے کھیلنا اچھا لگتا ہے ڈرائنگ بکس پر رنگ بکھیرتی ہے، گوگل سے دیکھ کر مختلف قسم کی شکلیں بناتی ہے۔ کچھ اچھی بن جاتی ہیں اور کچھ بگڑ جاتی ہیں۔ انہی بنتی بگڑتی شکلوں کے ساتھ وہ خوش اور اداس ہوتی ہے۔

آج کل وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر ڈانس مووز بھی سیکھ رہی ہے۔ جو اس کے بھائی نے کسی ویڈیو یا کارٹون کریکٹر سے سیکھے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ پیپر آرٹ اور پرفارمنگ آرٹ دونوں میں خوش رہتی ہے اور میں بطور باپ اسے خوش دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں۔

یہ دونوں کبھی کبھار تو مجھے بھی اپنے ساتھ کچے پکے ناچ میں شامل کر لیتے ہیں اور پھر ہم تینوں مل کر کسی بیٹ یا دھن کی ایسی تیسی پھیرتے ہوئے ناچنے لگتے ہیں۔ مجھے ساتھ ناچتا دیکھ کر بیٹی کے چہرے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ شاید یہ سوچ کر چہک رہی ہوتی ہے کہ اس کا باپ اس کی خوشی میں شامل ہے۔

میرے جیسے بہت سے باپ اپنے بچوں خاص طور پر بیٹیوں کی خوشیوں میں اسی جوش و خروش کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ وہ پولیس والے بھائی صاحب اور ان کی بیٹیوں کی ویڈیو آپ نے دیکھ رکھی ہو گی۔ زندگی سے بھرپور ویڈیو تھی، دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔

مگر کیا کریں یہ مملکت خداداد پاکستان اپنی اولاد اور خاص طور پہ بیٹیوں کی خوشیوں میں شامل نہیں ہوتی۔ نہ ہی انہیں مکمل طور پہ خوش ہونے دیتی ہے۔ پرفارمنگ آرٹ، اس کی ضرورت اور مواقع کی بحث اور دلائل تو بھول ہی جائیں، میں آپ کو زمینی حقائق بتاتا ہوں۔

میں سرکاری سیٹ اپ میں میڈیا اسٹڈیز کا استاد ہوں۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ سرکاری سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں لڑکیوں کے ڈانس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ہم چار چار درجاتی اجازتوں کے بعد ان بچیوں کے لیے محض کھانے پینےکا معمولی سامخلوط بندوبست کر پاتے ہیں، جسے پارٹی کا نام دے دیا جاتا ہے۔

یہی ان طالبات کی زندگیوں کے یادگار ترین لمحات ہیں۔ اور اداروں کی طرف سے یہی ان کی سماجی سرگرمی ہے۔

پرفارمنگ آرٹ، سپورٹس، تخلیقی سرگرمیوں، تقریر، فن تحریر اور دوسری تعلیمی سرگرمیوں میں ان طالبات کی حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے راستے میں درجنوں گیٹ کیپرزموجود ہیں۔ والدین، رشتہ دار، اور معاشرے کے ٹھیکے داروں سے بچ کر آ بھی جائیں تو تعلیمی اداروں میں موجود روایتی بیانیہ انہیں سو بہانوں سے روکتا ہے۔

میں خٹک ناچ، جھومر اور بھنگڑے کے اس دیس میں ڈانس کے حق میں دلائل نہیں دوں گا۔ مگر میڈیا کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے ریاست سےایک گلہ ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے سماج اور اس کے کرتا دھرتا لوگوں کو میڈیا، میڈیا لٹریسی اور کونٹینٹ کے اثرات کی سوجھ بوجھ ہی نہیں ہے۔ اس ریاست کو کسی صحافی یا دانشور کی تنقید تو فورا سمجھ آجاتی ہے اور اس پہ راتوں رات رد عمل بھی آجاتا ہے۔ مگر حافظ حسن چستی جیسے کسی ان پڑھ شخص کا نہ صرف مذہبی تعلیمات بلکہ عوام الناس کی اجتماعی توہین پر مبنی مواد نظر نہیں آتا۔

ریاست پی ٹی وی اور کمرشل میڈیا کے مواد کے حوالے سے بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ صرف سیاسی کونٹینٹ جس سے کسی صاحب اقتدار یا طاقتور کو خطرہ ہو پر ہی پیمرا یا ایف آئی اے کا ردعمل آتا ہے۔ کوئی سر عام آدھی سے زیادہ آبادی کے وجود کو خطرے میں ڈال دے، والدین کے لیے غلیظ الفاظ کا استعمال کرے تو ریاست خاموش تماشائی بنی رہے گی۔

یہ صرف لڑکیوں کے ڈانس کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ریاست ایسے شدت پسندوں کے ساتھ مل کر یا ان کی آڑ لے کر پرفارمنگ آرٹس کی شدید حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ پاکستان کے کسی سرکاری سکول یا کالج میں آپ نے ڈانس کلاسز، میوزک کلاسز، آرٹ کلاسز، کمیونیکشن سکلز لرنننگ، ایکٹنگ سکلز، سماجی رویے سکھانے والی کوئی ورکشاپ یا سپورٹس کلاسز شاید ہی کبھی دیکھی ہوں گی۔

یہی وجہ ہے کہ اس بدقسمت ملک کے بچے ڈاکٹر، انجنیئر، بیورو کریٹ، ججز اور جنرلز بھی بن جائیں تو ان کے رویوں میں سدھار نظر نہیں آتااور وہ اپنے اندر سے شدت پسندی اور انتہا پسندی نہیں نکال پاتے۔

پاکستانی ریاست خود ضیاءالحق کی شدت پسندی اور پرویز مشرف کے نام نہاد لبرل ازم کے درمیان کنفیوژن کا شکار ہے۔ بلکہ کسی بے تالے اور عطائی ڈانسر کی طرح ایک قدم مشرق میں اٹھاتی ہے اور دوسرا مغرب میں۔ ریاست اگر ردھم میں ناچتی اور سر میں گاتی تو شہری بھی تال کے ساتھ تال ملاتے اور کسی جاہل کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی کہ “توں دھی سکولوں ہٹا لے اوتھے ڈانس کر دی پئی اؤ ”

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو ریاست اپنے شہریوں کو جائز تنقید کرنے کا حق نہ دیتی ہو وہ ناچنے اور گانے جیسے ” بے ہودہ کاموں کی حوصلہ افزائی کیوں کرے گی “۔

آپ کو حیران کن طور پہ حافظ حسن چستی اور ریاست پاکستان کے خواتین اورپرفارمنگ آرٹ کے حوالے سے بیانیہ میں مماثلت نظر آئے گی۔ الزامات لگا دو، دھونس جما دو، ڈرا دو، اور ہجوم اکٹھا کر لو۔ دونوں اپنے آپ کو عقل کل اور عوام الناس کو بیوقوف اور جاہل سمجھتے ہیں۔

لہذا آپ بھول جائیے کہ یہ حکومت یا ریاست حسن چستی جیسوں کے خلاف کوئی کاروائی کرے گی۔ آپ سے التجا ہے کہ ایسے کسی شدت پسند سے متاثر ہو کر اپنی بیٹیوں کو سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں جانے سے نہ روکیئے گا۔ بلکہ ان کا ساتھ دیجئے گا۔ حوصلہ افزائی کیجئےگا۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp