شملہ معاہدے کو آج 52 برس بیت گئے۔ اس عرصے میں زمانے نے بہت سی کروٹیں بدلیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی نے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور یہ دونوں ہی لیڈر آنے والے وقت میں اپنوں کا نشانہ بنے۔ ضیاء الحق کے مارشل لا میں بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ گولڈن ٹیمپل پر حملے کے بعد اندرا گاندھی سکھ گارڈز کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔ یہ معاہدہ انہی دونوں رہنماؤں کی یاد سے بھی عبارت ہے۔
مشرقی پاکستان میں شکست اور پاکستانی فوجیوں کے بڑی تعداد میں جنگی قیدی بن جانے کی وجہ سے پاکستان کی پوزیشن کمزور تھی لیکن بھٹو نے شملہ میں ایک باوقار معاہدہ کیا۔
ادھر اندرا گاندھی کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اوریانا فلاسی کے انٹرویو میں بھٹو کے اپنے بارے میں نازیبا کلمات کا برا مان کرپہلے مذاکرات سے انکارکردیا لیکن بعدمیں اپنی رائے سے رجوع کر کے بھٹو سے ملاقات پر آمادگی ظاہر کی۔ شملہ معاہدے کی وجہ سے انڈیا میں ان پر بہت تنقید ہوئی کہ وہ مضبوط پوزیشن کے باوجود پاکستان سے کچھ حاصل نہیں کرسکیں۔
شملہ معاہدے کے دن کی مناسبت سے مجھے اس سے 6 برس پہلے کے اعلان تاشقند کی یاد آئی اور ان دونوں معاہدوں کے تعلق سے ایک قدر مشترک کو بنیاد بنا کر کچھ بات کرنے کا خیال سوجھا کہ تاریخ کا پینڈولم کس طرح واقعات کو دہراتا ہے۔
اعلان تاشقند اور شملہ دونوں ہی معاہدوں کے بارے میں یہ تاثر شدو مد سے پیدا کیا گیا کہ ان میں کچھ ایسا بھی تھا جسے خفیہ رکھا گیا۔ حالاں کہ ان معاہدوں میں خفیہ کچھ نہیں تھا۔ اس کا واویلا کرنے والے بس سیاسی مفادات بٹورنا چاہتے تھے .
1966 میں پاکستان اورانڈیا کے مابین اعلان تاشقند ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کی حیثیت سے اس کا حصہ تھے۔ اس زمانے میں ایوب خان اوربھٹو کے تعلقات میں رخنہ آگیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے بیزار تھے۔ بھٹو نے عوام کے دل میں گھر کرنے کے لیے یہ شوشا چھوڑا کہ تاشقند میں ایوب خان نے کسی خفیہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے وہ وقت آنے پر طشت از بام کریں گے۔ خیر سے یہ وقت کبھی نہیں آیا۔
ایوب خان نے صفائی پیش کی۔ خفیہ معاہدے کے وجود سے انکار کیا۔ حکومتی ترجمانوں نے بھٹو کی بات کا تاثر زائل کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ سوویت یونین نے بھٹو کا دعویٰ رد کیا۔ قدرت اللہ شہاب کے بقول ’روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’تاس‘ نے یہ تردید شائع کی کہ معاہدہ تاشقند میں کسی قسم کی کوئی خفیہ شق ہی موجود نہیں ہے لیکن لوگوں نے اس تردید کو کوئی وقعت نہ دی۔ چاروں طرف بھٹو صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔‘
بھٹو کا وار کامیاب رہا۔ وہ ایوب خان سے سیاسی راہیں جدا کرکے نئی سیاسی اڑان بھر چکے تھے۔ تاشقند کے ’اسٹنٹ‘ نے انہیں سیاسی لحاظ سے بڑا فائدہ پہنچایا۔ پہلے آپ اس سیاسی یافت کے بارے میں دو ممتاز ادیبوں کی رائے جان لیں پھر آگے چلتے ہیں۔
سو باتوں کی ایک بات فہمیدہ ریاض نے کہی ہے:
’بھٹو صاحب نے ایوب خان کے خلاف ساری مہم معاہدہ تاشقند کی ’بے غیرتی‘ پر ہی چلائی تھی۔‘
معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو کے سیاسی ابھارکے بارے میں انتظار حسین نے ‘چراغوں کا دھواں’ میں روشنی ڈالی ہے:
’ذوالفقار علی بھٹو وزارت سے مستعفی ہو کر سیاست کے میدان میں کود پڑے تھے اوراعلان تاشقند کے رازسے پردہ اٹھانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ ویسے تو سب ہی سیاسی جماعتوں نے حسبِ توفیق اعلان تاشقند سے شہہ پائی اور طاقت پکڑی مگر سچی بات ہے کہ اس کا سب سے کامیاب استعمال بھٹو صاحب نے کیا۔ یوں ان کی بارہ مسالوں والی سیاست میں ہر مسالے کا اپنا ذائقہ تھا۔ اسلام ،سوشلزم ،جمہوریت مگر غالباً سب سے چٹ پٹا مسالہ یہی تھا۔ ان کا ہر جلسہ اس دھمکی پر ختم ہوتا تھا کہ اگلے جلسے میں اعلان تاشقند کے پیچھے جو سازش ہے اس سے پردہ اٹھاؤں گا اور ہر جلسے کے اعلان پر ادیبوں کا ٹولہ ٹی ہاؤس سے یہ توقع باندھ کر جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوتا تھا کہ آج راز سے پردہ اٹھے گا ،مگر پردہ نہ اب اٹھتا ہے نہ تب اٹھتا تھا۔‘
یہ قصہ مزید درازہوسکتا ہے لیکن اب تاشقند سے شملہ چلتے ہیں۔
تاشقند میں خفیہ معاہدے کی درفنطنی پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے چھوڑی تو شملہ معاہدے میں خفیہ شق کا اشغلہ 1978 میں انڈین وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے چھوڑا جس پر ہماری سیاسی جماعتیں اور اخبارات کا بڑا حصہ ایمان لے آیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان پر الزام دھرا تھا کہ انہوں نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی۔ عین مین یہی الزام واجپائی نے اندرا گاندھی پر عائد کیا۔
واجپائی نے ضیاء الحق کی فوجی حکومت کو بھٹو کے خلاف جاری میڈیا ٹرائل کے لیے ایک اور افسانہ مہیا کردیا۔
اس پروپیگنڈے کی خبر جیل میں ذوالفقار علی بھٹو تک بھی پہنچی۔ انہوں نے جیل میں تحریر کردہ کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ میں اس بارے میں کھل کر اپنا مؤقف پیش کیا:
’پاکستان اور بھارت کو جس اہم ترین مسئلے کا سامنا ہے وہ مسئلہ کشمیر ہے۔ شملہ میں مناسب اقدامات کیے گئے تھے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کن میکاویلین مقاصد کے لیے کنٹرولڈ پریس اور اس کے ان بے ہودہ صحافیوں نے جوموجودہ فوجی حکومت کے لیے محکمہ اطلاعات اور نشریات میں کام کرتے ہیں، شملہ معاہدے میں ایک خفیہ شق کا شوشا چھوڑا۔ موجودہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ایسی کوئی خفیہ شق وجود نہیں رکھتی، اس کے باوجود اس جھوٹ اور فریب کی تشہیر جاری ہے۔‘ (ترجمہ: ستار طاہر)
بھٹو نے کتاب میں فوجی حکومت اور واجپائی کے دعوے پراور بھی کئی سوالات قائم کیے جن میں بڑا وزن ہے۔
معروف اسکالرڈاکٹرفیروزاحمد نے ’پاکستان فورم‘ میں ’واجپائی کا انکشاف‘ کے عنوان سے مضمون میں ان عناصر پر گرفت کی جو انڈین وزیر خارجہ کے بیان کو لے اڑے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ بھٹو پریہ الزام اتنا ہی پرانا ہے جتنا شملہ معاہدہ لیکن اب دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو انڈین وزیرخارجہ اوربعض انڈین اخبارات کی صورت میں اتحادی مل گئے ہیں۔
ڈاکٹر فیروز احمد نے لکھا کہ غور طلب بات ہے کہ ‘جن سنگھ’ کے رہنما پاکستانی ‘محبان وطن’ کے خیر خواہ کس طرح بن گئے۔
اخبارات کے بارے ان کا کہنا تھا :
’پاکستانی اخبارات جس طرح سے اٹل بہاری کے بیانات پر بغلیں بجا رہے ہیں اس سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہندوستانی وزیر خارجہ پاکستان کے ایجنٹ بن گئے ہوں۔ پاکستان کے اخبارات اپنی طفلانہ جبلت سے باز نہیں آ سکتے۔ انہیں کسی غیرپسندیدہ شخص کے خلاف کوئی شوشا مل جائے تو وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس کو اچھالنے سے ہو سکتا ہے کہ ملک کے مفاد کو ہی نقصان پہنچے۔‘
واجپائی جس انتہا پسندانہ فکر کی نمائندگی کرتے تھے وہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر یقین تو کیا رکھتی الٹا آزاد کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنا چاہتی تھی۔
ابھیشیک چودھری کی کتاب ’واجپائی دی ایسنٹ آف دی ہندورائٹ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شملہ معاہدے سے خوش نہیں تھے۔ ان کے اس دور کے بیانات سے پاکستان کے بارے میں سخت گیر موقف کا اظہار ہی ہوتا ہے۔ انہیں شملہ معاہدے کے تحت پاکستان کومقبوضہ علاقے آزاد کشمیر لیے بغیر واپس کرنے پر بھی تکلیف تھی۔
بھٹو کے جیل کے زمانے میں پاکستان کے جو جرائد صحافیانہ ذمہ داری، دیانت داری اور جرات مندی سے ادا کر رہے تھے ان میں ’ویو پوائنٹ‘ سرفہرست تھا۔ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹراورممتاز صحافی مظہرعلی خان اس کے ایڈیٹرتھے۔ انہوں نے واجپائی کے شملہ معاہدے کے بارے میں ارشادات پر مدلل تحریر لکھی۔
مظہر علی خان نے اکتوبر 1972 میں واجپائی کے دو پاکستانی صحافیوں سے انٹرویو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے اندرا گاندھی کی کمزور پالیسی پر تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے پاکستان کو پیکیج ڈیل پر مجبور کرنے کا بہترین موقع گنوا دیا، جس میں مقبوضہ کشمیر کو انڈیا کا اٹوٹ انگ تسلیم کیا جانا بھی شامل ہوتا ۔ واجپائی نے شملہ معاہدے کی مخالفت میں جن سنگھ کے ستیہ گرہ تحریک کی طرف مائل ہونے کا حوالہ دیا کیونکہ ان کے بقول ’اندرا نے مذاکرات کی میز پر وہ سب ہار دیا جو انڈیا نے میدانِ جنگ میں جیتا تھا۔‘
مظہر علی خان کا کہنا ہے کہ دو گھنٹے کے انٹرویو میں واجپائی نے کسی خفیہ انڈرسٹینڈنگ کی بات کی اور نہ ہی شملہ معاہدے کی کسی شق کے خفیہ ہونے پرشک ظاہر کیا۔ مظہرعلی خان نے پاکستان میں واجپائی کے مبہم الزامات کو سابقہ حکومت کے خلاف استعمال کرنے کومضحکہ خیزقرار دیا ۔
یہ یاد دہانی اس لیے ضروری تھی کہ ہمارے ہاں جن سنگھ کے رہنما کی باتیں، بھٹو دشمنی میں ایک ابدی سچائی کا روپ دھار چکی تھیں۔ ان کا فرمایا ہوا مستند ٹھہرا تھا۔
حکمرانوں کی حب الوطنی کو مشکوک قرار دے کر انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنے کا سلسلہ بھٹو کے بعد بھی جاری رہا۔ اس سلسلے کی مختلف مثالوں میں سے ایک پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں۔
میمو گیٹ کے قضیے کو تیرہ برس ہونے کو ہیں، اس کا پرچہ عمران خان نے مینار پاکستان کے جلسے میں آؤٹ کیا تھا اور نواز شریف کالا کوٹ پہن کر بنفس نفیس میمو گیٹ کے خلاف درخواست دائر کرنے سپریم کورٹ گئے تھے۔
عاصمہ جہانگیر نے دہائی دی کہ میاں صاحب یہ فیصلہ آپ کو ’ہانٹ‘ کرے گا ۔ یہ بات درست ثابت ہوئی اور 2018 میں نواز شریف نے سرعام اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میمو گیٹ زرداری پر بنا تو مجھے ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا۔‘
میمو گیٹ سے قوم میں ہیجان پیدا کرنے اور سویلین حکومت کوزیرکرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا اوروہ جو پنجابی میں کہتے ہیں ’ککڑ کھیہ اڑائی تے آپنے سر وچ پائی‘ کا معاملہ ہی رہا۔ میموگیٹ اسکینڈل کے مرکزی ‘ملزم’ آصف علی زرداری آج پھر سے صدر پاکستان ہیں اوراس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جنہیں اس مسئلے پر دشنام والزام کا سامنا کرنا پڑا تھا آج چئیرمین سینیٹ ہیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ تاریخ کے سینے میں کوئی راز پوشیدہ نہیں رہتا لیکن تاریخی حقائق تبدیل کرنے کی کوشش دائروں کا سفر ثابت ہوتی ہے، جس میں شاید کوئی وقتی مفاد تو ہاتھ آجاتا ہے لیکن اس کے لیے اجتماعی مفاد قربان کرنا پڑتا ہے۔